Blog

کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے نقصانات


پاکستان میں کی جانے والی حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی بیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اس وقت 2.4 فیصد فی سال کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو کسی المیے سے کم نہیں ہے کسی بھی ملک کو اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف کے اندر کھڑا ہونا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وصائل کا بہتر طریقے سے استعمال کرنا سیکھے اور پاکستان خاص طور پر تب تک اپنے وسائل کا استعمال بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی شرح آبادی کے بہ لگام بڑھاؤ پر قابو نہ پا لے اگر جلد ہی اس مسلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو پاکستان 2030تک چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا ہ

ہیومن ڈولپمنٹ انڈکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 147ویں نمبر پر ہے جبکہ 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور وہ زندگی اچھے طریقے سے بسر کرے بھی کیسے؟ جب صوبے کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ اس کے کسی ایک شہر پر لگا دیا جاتا ہے اور پھر بھی وہ شہر ترقی نہیں کر پاتا کیونکہ جن علاقوں کا حق اٹھا کر ان بڑے شہروں میں لگایا جاتا ہے پھر وہاں کی آبادی کو مجبوراان بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور یہاں پر بھی وہ تمام سہولیات تب تک آسانی سے نہیں ملتی جب تک یا تو وہ کوئی سفارش نہ لائے یا پھر دروازے پر بیٹھے چوکیدار سے لے کر ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھے بابو جی تک کو اپنی خون پسینے کی کمائی سلامی کے نام پر نہ دیں ورنہ لمبی قطاریں اور دھکے ہی اس کو نصیب ہوتے ہیں۔

اسی مردم شماری کے مطابق روشنیوں کے شہر کراچی کی آبادی پچھلے انیس سالوں کے اندر 9.3 ملین(ایک ملین دس لاکھ کے برابر ہے) سے بڑھ کر 14.9 ملین تک پہنچ چکی ہے اور آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ہی یہاں کے شہریوں کے معیار زندگی دن بدن بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کا منہ بولتا ثبوت دی اکانومسٹ گروپ کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دی اکناموسٹ یونٹ کی شاع کردہ رپورٹ ہے جس کے مطابق کراچی ان شہروں کی فہرست میں 134ویں نمبر پر جو زندگی بسر کرنے کے لیے غیر موضوع ہیں بطور قوم اس سے بڑی شرم کی بات ہمارے لیے اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارا وہ شہر جو کبھی ہمارا دارلخلافہ رہ چکا ہے اور پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر سمجھا جاتا تھا آج وہ ایسی بدترین تنزلی کا شکار ہے

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا یہ روشنیوں کا شہر صرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آج اس نہج پر پہنچا ہے؟ جیسا کہ عرف عام میں سمجھا جاتا ہے نہیں بلکہ یہ شہر انتظامیہ کی دوسرے علاقوں کی جانب عدم توجہ، بجٹ کا زیادہ تر حصہ صرف اسی شہر پر بغیر سوچے سمجھے لگانے اور سسٹم کے اندر گھر کی گئی ہوئی اس کرپشن کی وجہ سے آج اندھیروں کا شہر بنا ہوا ہے۔

اگر کراچی کو پھر سے وہی روشنویوں کے شہروالی شہرت حاصل کرنی ہے تو دو چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے پہلا یہ کہ صوبہ سندھ کی انتظامیہ کو صوبے کے دوسرے شہروں کے اندر وہ تمام ضروریات زندگی جیسے کہ ھسپتال، سکول، کالجز اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ دوسرے شہروں سے آبادی اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر ان ضروریات زندگی کی تلاش میں کراچی کا رخ کرنا بند کر دیں یہ بات بہت افسانوی لگ رہی ہو گی پر ناممکن ہر گز نہیں ہے حکومت سندھ کو یہ قدم کسی نا کسی شہر سے ضرور اٹھانا پڑے گا ورنہ لوگ جوک در جوک کراچی کا رخ کرتے رہیں گے اور کراچی کے لوگوں کا معیار زندگی اور بھی بدتر ہوتا چلا جائے گا دوسرا یہ کہ شہر کے اندر موجود آبادی کی شرح کو کنٹرول میں لانے کے لیے ایک واضح پالیسی بنائی جائے جس سے عوام میں فیملی پلیننگ جیسے عوامل سے متعلق شعور پیدا کیا جائے اس کے علاوہ چند ضروری عوامل جن پر بھی فوری طور سے عمل کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ شہر میں موجود لینڈ مافیا کو ختم کیا جائے اور گھر بنانے کے معیار کو مختص کیا جائے، سرکاری اداروں کے اندر سخت نگرانی شروع کی جائے جو ان تمام کالی بھیڑوں کو باہر نکالنے میں مدد کرے جو سرکاری تنخواہ لے کر عوام کی خدمت کرنے کی بجائے آستین کے سانپ بنے بیٹھے ہیں، صفائی مہم چلائی جائے جو کسی بھی قسم کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے عمل سے پاک ہو اور اس کے اندر عوام الناس کو اہم شراکت دار بنایا جایا۔ عالمگیر عرف مسٹر فکس اٹ جیسے لوگوں کے کام میں خلل ڈالنے کے بجائے ان کے کام کو سراحا جائے اور ان لوگوں کی مدد لی جائے اور ان کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے اندر اس صفائی رکھنے کے شعور کو اجاگر کیا جائے تاکہ روشنیوں کا شہر کچرے کے ڈھیروں اور گردوغبار کے بادلوں میں اپنی روشنی ہمیشہ کے لئے کہیں کھو نہ دے