CPSD - Commentary

فلسطین اور کشمیر میں جبر اور تشدد: ایک سفارتی موقف کی ضرورت ہے


پچھلے ہفتے ایسے خطوں کے اندر تشدد میں اضافہ دیکھا گیا جو تاریخی لحاظ سے تنازعات کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا پس منظر مختلف ہے لیکن یہ دونوں تنازعے مطلق العنان ریاستوں کی مثال ہیں جو بغاوت کو روکنے کے لئے فوجی طاقت کا استعمال کررہی ہیں۔ دونوں تنازعات میں ایک اہم عالمی ریاست ایسے خطے کی ملکیت کے دعوے کرتی ہے جس کے باشندے اس مذکورہ بالا فیصلے سے راضی نہیں ہیں۔ فلسطین اور کشمیر دونوں مسلم اکثریتی خطے ہیں۔ اور ان تنازعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ شناخت بھی انتہائی اہم ہوجاتی ہے۔ اگرچہ مسئلہ کشمیر پاکستان کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے , اس پر تین جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں لیکن فلسطین کا مسئلہ مسلم دنیا میں اس کی اہمیت کے پیش نظر انتہائی اہم ہے۔ حالیہ واقعات میں کشمیر اور فلسطین کے اندر بد ترین تشدد کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان بین الاقوامی فورم جیسے کہ اقوام متحدہ پر اپنا سفارتی موقف قائم کرے جس سے اس کی اپنی پوزیشن واضح ہو

مقبوضہ کشمیر میں 19 افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے اکثر مقامی اور ان کا تعلق جنوبی کشمیر سےتھا۔ اس سال اس سے قبل ضلع شوپیان میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو ا تھا، اور ایسی جھڑپ کی شکل اختیار کرلی جسے پاکستانی وزیر دفاع خواجه آصف کی طرف سے "ریاستی دہشت گردی کے بدترین دن" قرار دیا تھا۔ مقامی افراد تشدد اور ہلاکتوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ جس کے باعث علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا، پاکستان کی جانب سے بھارتی فورسز کے اعمال کی مذمت زیادہ تر سرکاری حکام کے ٹویٹس تک محدود رہی اور اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا

فلسطین میں، مغربی کنارے کی پٹی ایک کھلی جیل میں بدل چکی ہے کیونکہ غزہ جیسے مقامات میں بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نے رہائشیوں کی نقل و حرکت کو محدود کردیا ہے۔ حالیہ دنوں 30 مارچ 2018 کو"عظیم واپسی مارچ کے شرکاء" غزہ کی سرحد کے قریب "یوم ارض" کی یاد میں اکٹھے ہوئے۔ "یوم ارض" اس واقعہ کی یاد میں منایا جاتا ہے جب 30 مارچ، 1976 کو چھ نہتے فلسطینی شہری اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔ یہ شہری اسرائیلی حکومت کے بڑے پیمانے پر فلسطینی زمینیں غصب کرنے کے اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے. رواں سال مارچ میں "عظیم واپسی مارچ" روکنے کے لئے اسرائیلی افواج کی طرف سے طاقت کا غیر مناسب استعمال ہوا جس سے 17 فلسطینی مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ کویت کی اپیل پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی۔ تاہم پاکستان نے سفارتی سطح پر اس مسئلے پر کوئی بھی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ، اگرچہ فوری طور پر ایسی کارروائی کی جانی چاہئے تھی، جو نہ صرف عالمی پیمانے پر نظر آتی بلکہ انسانی حقوق کی حفاظت اور مشکل وقت میں اپنے اتحادیوں کےساتھ کھڑے ہونے کو بھی یقینی بناتی

فلسطین اور کشمیر کے یہ دونوں واقعات پاکستان کے لئے ایک موقع ہیں کہ سفارتی سطح پر اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کو ایک ٹھوس پیغام بھیجے۔ پاکستان نے ہمیشہ مشکل حالات میں دونوں مقبوضہ علاقوں کی حمایت کی ہے اور اسے یہ موقف تبدیل نہیں کرنا چاہئے. پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ان واقعات کو روکنے کے لئے مؤثر کاروائی کے لئے اقوام متحدہ میں بھی ایک قرارداد پیش کرنا چاہئے۔ پاکستانی خارجہ پالیسی میں اس سے قبل غیر زمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جب رواں سال میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پاکستان وفد نے شام میں جنگ بندی پر رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔ ایسی مثالیں پاکستان کے موقف اور اس کی صداقت پر سوالیہ نشان ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو واضح طور پر بھارت اور اسرائیل دونوں کی سختی سے مذمت کرنی چاہیے، خاص طور پر بھارت اور اسرائیل کے ابھرتے ہوئے اتحاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ کشمیر اور فلسطینیوں کے ظلم و ستم سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے سافٹ پاور حکمت عملی کا بھی استعمال ہونا چاہئے یوں بجائے محض اعلی سطحی پیش رفتوں کے عوامی نفرت اور رائے عامہ اس معاملے کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں