Non Conventional Threat

ھارت کی جاسوسی کاروا‏ئیاں اور کلبھوشن یادیو کیس

By Saddam Shah


جاسوسی فوجی تاریخ میں ہمیشہ سے جنگ کا ایک لازمی اور غیر اخلاقی حصہ رہا ہے جبکہ اس کا دائرہ کار سیکورٹی جنگ اور سیاست کی متحرک نوعیت کے ساتھ ساتھ پھیلتا رہا. دنیا انسانیت کے لئے اٹھنے والی آوازوں سے بھری پڑی ہے ایسے میں نظام جاسوسی جوعام لوگوں کے قتل عام کی پشت پناہی کرتا ہے کا ہونا متنازع اوربہت متضاد لگتا ہے

جب پاکستان بھارت کے خلاف اسٹریٹجک مزاحمت کے طور پر کامیاب ایٹمی تجربات کر کے طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا تو بھارت کے لئے اپنی برتری برقرار رکھنے کا واحد راستہ یہ بچا کہ وہ عسکری طاقت کے علاوہ تمام شعبوں میں اپنے حریف کے اسٹریٹجک استحکام کا مقابلہ کرنے کے لئے عدم استحکام کی حوصلہ افزائی سے ایک ہائبرڈ جنگ جاری رکھے اور روایتی جنگ یا پیش بندی جوہری حملہ کے بغیر دشمن کو شکست دینے کی کوشش کرے

غیر ملکی حمایت یافتہ غیر ریاستی اور ریاستی عناصر کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی جانیں جا چکی ہیں جس میں بہت سے سیاستدان اور حکام بھی شامل ہیں. کراچی جو سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور قومی اقتصادی مرکز ہے بد ترین کشاکش کا شکار ہے جبکہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سیاسی بے اعتنائی کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کے میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے بلکہ شورش کا باعث بھی بنا اوراس کے ساتھ ہی کھلی غیر محفوظ سرحد ہے جو اس کی مفید جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے پراکسی زمین کے طور پر استعمال کی جاتی ہے .اگرچہ پاکستان کا ہر شہر اس صورت حال سے دوچار رہا ہے مگر کراچی اور بلوچستان ان کے گلے شکووں اور نمایاں نسلی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تنوع کی وجہ سے سب سے کمزور اہداف رہے ہیں

دہشت گردی کے سیاسی مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس کا مدعا عوام النّاس کو دہشت زدہ کرنا ہے. مسلسل بم دھماکوں سے لوگوں میں سلامتی اداروں کی نا اہلی کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کو واضح طور پر تقویت ملتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی نظمی خامیوں کی وجہ سے پائے جانے والے عدم اطمینان اور اعتماد کے فقدان کی وجہ سے بے یقینی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے باوجود اس کے کہ اب تک مختلف آپریشنوں میں زبردست کامیابیاں ملی ہیں مگر ابھی تک اس خطرے کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی جبکہ پاکستان اس نوعیت کا واحد کیس نہیں ہے

پاکستان کی جانب سے ایک سزا یافتہ ہندوستانی بحریہ کے حاضر سروس افسر کی انسانی بنیادوں پر اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ کروائی گئی حالیہ ملاقات ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے لئے ہیجانی کیفیت پیدا کرنے اور ان کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کا ایک موقع تھا پاکستانی ذرائع ابلاغ کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ہے جو عسکری اور سفارتی محاذ پر ایک دوسرے کو زچ کرنے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری دو کارپوریٹ ذرائع ابلاغ کی میڈیا جنگ جس میں سیاستدانوں کی بیان بازی کے ساتھ سیاسی مفادات کا تڑکا بھی ہے. لیکن حالیہ ویڈیوبیانات میں جس طرح سزا یافتہ ایجنٹ نے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس ملاقات کے بارے میں بات کی،یہ کہانی کا ایک الگ پہلو بیان کرتا ہے جو پاکستان کے موقف کی واضح حمایت کرتا ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں خرابی بھی ظاہر کرتا ہے جو بات چیت یا بیک چینل سفارتکاری کے لئے اشارہ ہو سکتا ہے

2013 میں پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز ہوا اور اسی سال یادیوکو ایک خفیہ مشن سے اٹھایا گیا اس کو چا بہار کی ایرانی ساحلی شہر میں تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ اصل پاسپورٹ پر جعلی مسلم نام کے ساتھ رہ رہا تھا اور گزشتہ ایک دہائی سے اپنا نام نہاد کاروبار چلا رہا تھا جیسا کہ اسلام آباد سے جاری ایک ویڈیو بیان میں اعتراف کیا گیا جسے عوامی طور پر نشر کیا. جبکہ بھارت نے چابہار بندرگاہ میں بیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کی ہے اس سال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں زبانی طور پر بلوچستان میں بغاوت کی حمایت کی اور اسی سال بھارت نے سی پیک سے متعلق خدشات کا اظہار کیا. یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جن کا گہرا تجزیہ کیا جاسکتا ہے اور ممکنہ طور پر توقع کی جاتی تھی کہ سی پیک کے ایسے اہم اقدام سے پہلے ان کو مدنظر رکھا جائے

جہاں جمہوری اقدار میں انسانی حقوق پر مبنی آزادانہ ٹرائل اور دیگر قدریں شامل ہوںجہاں ذرائع ابلاغ کے لئے آزادی بھی ہو جس پر عوامی مقامات پر حفاظتی اداروں کی طرف سے کوئی قدغن عائد نہیں ہوتی اور یوں اس پہ ہونے والی بھارتی تنقید بلا جواز ہے. یہاں تک کہ پاکستان نے یادیو کے خاندان کے لئے قومی بھارتی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی تجویز پیش کی تھی جسے ہندوستانی ہائی کمیشن کی طرف سے نا منظور کیا گیا یقینا یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی جمہوری اقدار پر سوال اٹھاتا ہے

ایران سے جادھو کے اغوا کا بھارتی دعوی دو دوست ممالک کے درمیان تعلقات کو نشانہ بنانے کی کوشش لگ رہا تھا جیسا کہ ایرانی سفارت خانے نے اظہار کیا اور جب ایرانی صدر روحانی نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اس کے بعد ایران نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کیں اور پاکستان کی درخواست پراس کوتعاون فراہم کیا جس سے پاکستان کو اپنے شواہد میں بہتری لانے میں مدد ملی. دوسرا اگر یہ اغوا ہوتا تو ایران کی طرف سے سخت ردعمل کی توقع تھی مگر ایسا نہیں ہوا. ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹے بھارتی دعوے کو یہاں پاکستان کے طرف سے ایران کے خلاف منسوب کرنے کی کوشش تھی جوکہ نہ تو مالدیپ ہے اور نہ ہی نیپال یا افغانستان اسی لئے جب بھارت کو اس کے اس بیان کےاثرات کا اندازہ ہوا تو اسے جیش العدل کے ساتھ جوڑ دیا نئی دہلی کے الزام کے مطابق اس تنظیم نے اغوا شدہ بھارتی شہری کو پاکستان کو فروخت کیا

پاکستان کی جانب سے ملاقات کی پیش کش انسانی بنیادوں پر تھی یا نہیں، یہ بات قابل بحث ہے لیکن یہ کیس جیتنا دونوں ممالک کے لئے ایک جیسی اہمیت رکھتا ہے. پاکستان کو دنیا کو یہ بات ثابت کرنے کے لئے قانونی طور پر جواب دینا چاہئے کہ بھارت اس کی خود مختاری اور سرزمین پر منظم دہشت گردی کی سرگرمیوں کے وسیع سلسلے میں ملوث ہے. دوسری طرف بھارت پاکستان میں اس کی قانونا واضح طور پر سپانسرڈ دہشت گردی کی کاروائیوں کے خلاف تنقید کی کسی بھی قسم کی آوازوں کو روکنے کے لئے ہمسایہ ممالک کو مغلوب کرنے کی کوشش کر رہا ہے

ہندوستان کی طرف سے یہ کیس بین الاقوامی عدالت انصاف لے جایا گیا ۔ برعکس دیگرجاسوسوں کے معاملے کے کہ جہاں بھارت مسلسل انکار کرتا رہا ۔ مگر کلبھوشن کے معاملے میں ہندوستان نے یہ اعتراف کیا کہ وہ بھارتی بحریہ کا سابق افسر ہے جب کہ اس کا اصرار ہے کہ اسکا ایران میں قانونی کاروبار ہے. طبی رپورٹ کے مطابق ایک صحت مند عسکری پروفیشنل کی طرف سے اس ملاقات کے بعد جاری کی گئی یہ اعترافی ویڈیو کوئی معمولی بات نہیں اور غالبا بھارتی حکومت کے پاس دنیا کواس معاملے کی شفافیت ثابت کرنے کے لئے کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے عدالتی ادارے میں اپنی قانونی بازی کھیلے لیکن اسے اس کیس میں ہارنا کافی مہنگا پڑ سکتا ہے. لہذا بین الاقوامی عدالت انصاف آنے سے بھارت خود ایک ایسے مسئلے میں پھنس گیا ہے کہ جس سے کسی بھی قیمت پر اسے باہر آنا چاہئے. جبکہ پاکستان کے لئے یہ ہندوستانی خفیہ پالیسیوں کو قانونی طور پر شکست دینے کا ایک موقع ہے جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینے کی بھارتی کوششوں کوکم از کم چند سال تک کے لئے مشکل بنا دے گا ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی شہریوں کو کسی حد تک ان کے ریاستی اداروں پہ اعتماد اور سیکورٹی پر اطمینان کا باعث بنے گا

جیسا کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے پریس کانفرنس میں تصدیق کی ہے کہ یہ اس کی خاندان کے ساتھ آخری ملاقات نہیں تھی اور قونصلرانہ رسائی جو ابھی تک نہیں دی گئی ہے کا امکان نہیں ہے نہ ہی وہ قانونی طور پراس بات کے لئے پابند ہے جیسا کہ پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں کہا گیا۔ تاہم ایسا اس صورت ممکن ہے اگر ہندوستان مقدمے کی تحقیقات میں تعاون کے لئے اتفاق کرے جس پر انہوں نے مقدمے کی سماعت میں اتفاق نہیں کیا جبکہ کچھ شرائط پر رحمدلی کا حل بھی موجود ہے. اس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس ابھی تک دوسرے اختیارات موجود ہیں لیکن اہم اختیار یہ بچتا ہے کہ دونوں ممالک بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی طور پر یہ مقدمہ لڑیں اور یہ پاکستان کے حق میں جا سکتا ہے اگر وہ اطمینان بخش دلائل کے ساتھ ٹھوس ثبوت فراہم کرے جو پاکستان کو لازمی کرنا چاہیے

یہ معاملہ ایک ریاست کے اندر پوشیدہ کارروائیوں میں ملوث محض ایک فرد کو پھانسی دینے کا نہیں ہے جیسا کہ اعتراف کیا گیا ہےبلکہ یہ ثابت کرنے کے بارے میں ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان میں مالی طور پر منظم دھشت گرد حملوں کی حمایت کرتا بلکہ اس کے لئے بنیادی افرادی وسائل بھی فراہم کرتا ہے

یہ اب ایک قانونی کیس ہے جو قابل اعتماد انٹیلی جنس رپورٹوں اور معلومات کو دلائل بنا کر جیتنا چاہئے تاکہ بھارت پر پاکستان میں دہشت گردوں کی خفیہ معاونت ختم کرنے کے لۓ بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور سفارتی دباؤ بڑھے ۔ یہ اس سرزمین پر دہشت گردی کا مؤثر طورپرمقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے جو ہزاروں جانیں نگل چکی ہےاور مالی نقصان الگ ہے. ایک بار پاکستان اقتصادی طور پر مضبوط سماجی طور پر پرامن اور سیاسی طور پر مستحکم ہو جاتا ہےتو یہ بھارتی جارحانہ سوچ کا مقابلہ کرنے کے لئےایک حقیقی ثابت قدم پیش بندی ہوگی


About The Author :    "Saddam Shah"

صدام شاہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ ان کی

دلـچسپی کے میدان بلوچستان کی سیاسی اور سماجی اقتصادی ترقی، جنوبی ایشیائی سیاست ، دھشت گردی اور کاؤنٹر

ٹیررازم سٹریٹجی، عالمگیریت اور جنگ ہیں۔


Balochistan Terrorism Espionage Iran Pakistan India ICJ