تحاریر

سانحہ اے پی ایس اور ھمارے تعلیمی ادارے


طالبعلم کسی بھی قوم کے لیے فخر کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ یہ معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت معصوم ہوتا ہے اس سے ہر کوئی شفقت سے پیش آتا ہے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جس سے بہت جلد اسی قوم کی ترقی کے لیے کام لیا جانا ہوتا ہے اور ان طالبعلموں سے اس بات کی توقع کی جاتی کہ وہ ان ترقی پسند روایات کو قائم رکھتے ہوئے قوم کی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کریں گیں۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان طالبعلموں کی درسگاہوں کو محفوظ بھی بنایا جائے۔ پاکستانی تعلیمی اداروں کے اندر تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے اور ہر طرح سے ان تعلیمی اداروں کو نقصان پہچانےکی کوشش کرتے ہیں۔

16دسمبر 2014 صبح ساڑہے دس بجے کے قریب چھ دہشتگرد جن کا تعلق پاکستان تحریک طالبان سے تھا پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول پر ایف سی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس حملہ آور ہوے اس حملے میں 150 سے زائد معصوم بچوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا وہاں پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کو زندہ جلا دیا گیا۔ جیسے ہی اس بات کا علم طالبعلموں کے والدین کو ہوا تو ایک کہرام مچ گیا اور پورا پاکستان سوگ میں ڈوب گیا۔ کوک رسپونس یونٹ کے جوان چند ہی منٹوں کے اندر سکول میں پہنچ چکے تھے، آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگرد اپنے ساتھ کئی دن کا راشن اور اسلحہ لے کر آئے تھے تاکہ بچوں کو یرغمال بنا کر حکومت سے اپنے مطالبات منوائے جا سکیں پر کچھ ہی گھنٹوں کے اندر ان تمام دہشتگردوں کوجہنم واصل کر دیا گیا۔ اس تمام واقعے کے بعد جو کچھ باقی بچا وہ قیامت کے منظر سے کم نہ تھا والدین اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے باہر ہجوم کی صورت مے جمع تھے جبکہ ہسپتال کا عملہ ان کے پیاروں کے لاشوں کو خون آلودہ کپڑوں سے نکال کر سفید کفن میں پھولوں کی مانند سجا رہا تھے اور جو بچے محفوظ رہے پر زخمی حالت میں ھسپتال پہنچے تو ان کے خون عطیہ کرنے کے لیے ایک اور ہجوم ھسپتال کے باہر موجود تھا

کچھ ہی دیر میں اس سانہ کی خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئ بہت سارے ممالک کے سربراہین نے اس واقعے کی مذمت کی اور اس دن کو پوری انسانیت کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی تمام شہروں کی سیکیورٹی کو الرٹ کر دیا گیا۔ داخلی اور خارجی راستوں پر پہرہ سخت کر دیا گیا۔ سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر تمام تعلیمی اداروں کے سردیوں کے امتحانات کو ملتوی کر کے ان تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کروا دیا گیا۔ راتوں رات پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہئ نیشنل ایکشن پلین مرتب کیا گیا جس میں طالبان سے بات چیت کے تمام راستوں کو بند کر کے ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا گیا۔ اور اب سزائے موت پرلگی قدغن کو بھی ختم کر دیا گیا آئین کے اندر اکیسویں ترمیم کر کے دہشتگردوں کے مقدمات کو کم وقت کے اندر نمٹانے کے لیے ملٹری کورٹس کا وجود سامنے لایا گیا

اس سانحہ کے فورا بعد افغانستان کی حکومت پر اس کا بات کا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ افغانستان کے اندر موجود پاکستان تحریک طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کریں ورنہ ہمیں مجبورا خود یہ کام کرنا پڑے گا۔ جس پر افغان صدر نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ ہم ان کے تمام ٹھکانوں کو بہت جلد ختم کریں گیں۔ پر پاکستانی فوج اس بات پر خاموش نہیں بیٹھی اور دہشتگردوں کے گرد گہیرہ تنگ کرنا شروع کر دیا اور بات اس نہج پر پہنچ گئی کہ پاک افغان سرحدی پٹی کو مجبورا خاردار تاروں کی مدد سے محفوظ بنانا پڑا تاکہ جو دہشتگرد افغانستان سے پاکستان کے اندر تخریب کاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو موثر طریقے سے روکا جا سکے

پاکستان کے اندر موجود تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے کے لئے حکومت پاکستان نے صرف ان باتوں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ تمام تعلیمی اداروں کی لئے کچھ باتیں ضروری قرار دے دیں جس سے ان کے تعلیمی اداراے کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کے لیے کچھ ھدایات دی گئی جیسا کے سیکیورٹی کیمروں کا استعمال، بیرونی دیوار کی مخصوص انچائی اور ان کے اوپر خاردار تاروں کا استعمال، وآک تھرو گیٹس یا سکینرذ کا استعمال، سکول کی چھت پر مورچے کا قیام، ھتھیاروں سے لیس سیکیورٹی گارڈز، بچوں، اساتذہ اور باقی عملے کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی لیے ٹریننگ تاکہ وہ خود بھی مسقبل میں ہونے والے کسی بھی ایسے ناخوشگوار واقعے سے کسی حد تک خود بھی نمٹ سکیں

ان تمام عوامل کے باوجود فروری 2017 میں ایک دفعہ پھر سے چارسدہ کے ایک تعلیمی ادارے پر دہشتگرد حملہ ہوا جس میں جانی نقصان قدرے کم پر ہوا ضرور۔ آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ اس حملے کے دوران دس فون کالز کو ٹریس کیا گیا جو کے اس علاقے کے اندر سے افغانستان ملائی جا رہی تھیں۔ جس سے افغانستان کی دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں ناکامی کا ثبوت ملتا ہے

آج آرمی پبلک سکول کے سانحہ میں شہید ہونے والے لوگوں کی یاد میں آرمی پبلک سکول کے اندر اور ملک بھر میں مختلف پروگرامز منعقد کئے گئے ان تمام پروگرامز کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ ہے کے یہ تمام قوم کو بار بار یادہانی کروا رہےہیں کہ یہ جنگ اب ہماری جنگ ہے اور دشمن آج بھی تاک لگا ئے بیٹھا ہے کہ کب اس کو موقع ملے اور وہ وار کرے اس لئے ہمیں بحیثیت ایک قوم اور پاکستانی شہری اس دشمن کا مل کر اور کر سامنا کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے شہدا کی یاد میں چراغ روشن کرتے رہنا ہو گا ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے رہنا ہو گا۔ تا کہ دشمن کو یہ پیغام م پہنچایا جا سکے کہ ہم آج بھی کچھ بھی بھولے نہیں ہیں۔


انتہہ پسندی عسکریت پسندی سانحہ اے پی ایس تعلیمی ادارے