27 July 2019 - گول میز مباحثہ بعنوان "کا نسٹی ٹیوشنل ایولوشن آف پاکستان"

کا نسٹی ٹیوشنل ایولوشن آف پاکستان


کراچی،27جولائی 2019: سینٹر فارپیس، سیکورٹی اینڈ ڈیولپمنٹل اسٹڈیز کی جانب سے دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن مین کیمپس کراچی میں پاکستان کے آئینی ارتقا کے موضوع پر گول میز تقریب کا انقعاد کیا گیا جس میں سیاسی کارکنان، قانونی ماہرین، وکلاءبرادری، صحافی اور شعبہ قانون کے اساتزہ نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ پاکستان کے آئین پر مباحثہ کے لیے پروگرام کو دو سیشنز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تقریب کا پہلا سیشن آئین کی بنیادی اسلامی جمہوری اساس کا تحفظ اور دوسرا سیشن آئینی ترامیم کے فوائد اور نقصانات پر مشتمل تھا.


پہلا سیشن : آئین کی بنیادی اساس کا تحفظ


دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمّد مختار نےاپنے افتتاحی خطاب سے مقررین اور شرکاء کا خیر مقدم کیا .انہوں نے اپنی تعلیمی خدمات کی روشنی میں سی پی ایس ڈی کی کاوشوں کو سراہا .پاکستان کی آئینی ارتقاء پر بات کرتے ہوئے گول میز

تقریب میں موجود سامعین کو نصیحت کی کہ ہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ''ان کونسٹی ٹیو شنل کونسٹی ٹیو شنل آمینڈمنٹس'' کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تا کہ غیر آئینی 'آئینی ترامیم'کی شناس ہو سکے .موجودہ دور کے مطابق ہر وقت کوئی نہ کوئی معاشی یا سماجی اقدار میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں تو آئین کو لچکدار ہونا چاہیے تا کہ آئینی ترامیم لوگوں کے لئے سہولت اور حفاظتی دیوار کا باعث بن سکیں.

سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائرایجوکیشن کے رئیس کلیہ قانون جسٹس سرمد جلال عثمانی نے آزادی سے لے کر اب تک آئین پاکستان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا .انکا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہر آنے والے حکمران نے خود کو طاقتور یا غیر مشروط پاور دینے کیلئےدستور پاکستان کو مسخ کیا- آئین میں مزید اب ترامیم کی ضرورت نہیں، ضرورت ہے تو صرف اور صرف اداروں میں اصلاحات کی کیونکہ ایک جج دس لاکھ لوگوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتا وہ ایک دن میں ہزاروں کیس نہ سن سکتا ہے نہ کسی کا فیصلہ دے سکتا ہے۔ آئین میں ترمیم صرف اور صرف عوام کو سہولیات و آسانیاں پیدا کرنے کے لئے کی جائیں نہ کہ کسی مخصوص فردکے لئے.

اس سیشن کے تیسرے اسپیکر ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ اسد جمال تھے۔ انھوں نے آئین پاکستان میں کی جانے والی ترامیم کا سیاق وسباق بیان کیا. اسد نے جسٹس سرمد جلال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بیشتر آئینی ترامیم کے پیچھے شخصی مفادات ہوتے ہیں۔

چوتھے اسپیکر سابق سفیر جمیل احمد خان نےصوبائی خودمختاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے پارلیمانی نظام حکومت بہتر رہے گا ماضی کی مثال بنگلہ دیش ہمارے سامنے ہیں. اٹھارویں ترمیم پر بات کرتے ہوئے کہا کے عوام کو اعتماد میں لائے بغیر اس میں تبدیلی ممکن نہیں ، عوام کو اعتماد لائے بغیر آئین میں ترامیم کی وجہ سے ملک کسی بھی بحران کا شکار ہو سکتا ہے.

پہلے سیشن کا اختتامی خطاب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پروفیسر ڈاکٹر رانا خان نے کیا. پروفیسر رانا کا کہنا تھا کہ آرٹیکل(A)170 کےمطابق ججوں کی تقروری کو مزید شفاف کرنے کی ضرورت ہےجوڈیشنل کونسل اور پارلیمانی کمیٹی کو ججوں کو تقرر کرنے کے لئے بار کونسل سے بھی ججوں کے نام لینے چایئے تا کہ قابل لوگ آگے آ کر عدالتی نظام میں بہتری لا سکیں اور عوام کو فوری انصاف میسر ہو سکے۔


دوسرا سیشن : ترامیم کے فوائد و نقصانات


دوسرے سیشن کا آغاز سابق وفاقی وزیر(ر) لیفٹیننٹ جنرل تنویر حسین نقوی نے کیا۔ لوکل گورنمنٹ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس لوکل گورننس نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے غیر موثر اور غیر اختیاری لوکل گورنمنٹ کا نظام دیہی آبادی کو شہری علاقوں میں تبدیل کرنے کا مقصد پورا نہیں کر سکے گا بلکہ موجودہ نظام شہری علاقوں کو دیہی علاقوں میں تبدیل کر دے گا .اس لئے صوبائی اور وفاقی کن کرنٹ لیجسلیٹو لسٹ کی طرح لوکل گوورنمنٹ لیجسلیٹو لسٹ کی بھی پالیسی سازی کرنی چاہیے تا کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندگان اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو سکیں.

دوسرےاسپیکروکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے بنیادی حقوق اور بلدیاتی حکومت پر بات کی .انکا کہنا تھا ہمیں بلدیاتی گورننس کے تصور کو کچی سڑکیں پکی کرنا، کچرا صاف کروانا اور سیوریج کا نظام بہتر بنانا سے آگے وسیع کرنے کی ضرورت ہے- لوکل گورننس کے نظام کو جدید کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم، صحت اور پبلک سروس شامل کرنا چایئے تا کہ ریاست کا اس میں رہنے والے افراد کے ساتھ معاہدہ پورا ہوتا نظرآ سکے۔ ہمیں ترقی یافتہ شہروں کےبلدیاتی ماڈل کو اپنانا چایئے. لوکل ایگزیکٹو میں نمائندگان ہمیشہ لوکل افراد کی سیٹس ہونی چایئے تا کہ ایگزیکٹو انتظامیہ میں موجود نمائندگان کا احتساب انکی لوکل عوام کر سکے.

تیسرے اسپیکر حامد خان نے عدالتی نظام میں ججوں کی تقرری اورمعزولی کو اجاگر کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس غیر مشروط طاقت کا ہونا عدلیہ کے آزاد ہونے پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے. کوئی طریقہ کار ہی موجود نہیں کے کسی بھی جج کا اوپن ٹرائل ہو سکے یا کسی بھی جج کی معزولی کی وجہ کی انفارمیشن پٹشنر کو مل سکے.اس لئے ہمیں عدلیہ کو مؤثر اور آزاد بنانے کے لئے جوڈیشل سپریم کونسل میں مزید تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے .

چوتھے اسپیکر وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمّد علی نے 1973کے آئین کے پس منظر میں تعلیم کے شعبہ میں قدرے بہتری اور مشکلات کے بارے میں خطاب کیا .انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کی تحویل میں آگیا ہے. اس کے باوجود تعلیمی شعبہ میں اب بھی وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کام کر رہا ہے چونکہ صوبائی اور وفاقی ہائرایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں میں تضاد پایا جاتا ہے تعلیمی اداروں کو پالیسی سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان اہم مسائل کے حل کے لئے کونسل فار ہائر ایجوکیشن بنانی چایئے جس میں تمام فریق بیٹھیں اور مشترکہ پالیسی بنائیں

پانچویں اسپیکر معروف وکیل اور سیاسی تجزیہ نگار بابر ستار نے جمہوریت سے گڈ گورننس پر خطاب کرتے ہوئےکہا کے ہم میں اختیارات کی تقسیم کرنے کا تصور نہیں ہیں، وفاق صوبوں کو اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی اسی طرح صوبائی حکومت لوکل گوورنمنٹ کو آختیارا دینے کے لئے تیار نہیں تو گڈ گورننس کہاں سے آ ئیگی.گڈ گورننس کا لفظ آئین میں آیا ہے تو گڈ گورننس منصفانہ قانونی اورآئینی احکامات کی تعمیل سے ہی ممکن ہے . بلکل اسی طرح آئینی احکامات کا تعین اس میں موجود مواد پر منحصر ہوتا ہے .قانون اچھے اور برےہوتے ہیں بلکل اسی طرح ترامیم بھی تو سب سے اہم چیز ہے ان میں موجود مواد ہے.اگر ترمیم یا قانونی احکام ہی ٹھیک نہیں تو انصاف کہاں سے آ ئے گا.


اختتامی خطاب


تقریب کا اختتامی خطاب قانونی ماہر تیمور ملک نے کیا اور پوری غوروفکر سے مقررین کو سننے کے بعد کہا کہ ہمیں سوچنا چایئے ہم کون ہیں اور ہمارا اجتماعی مقصد کیا ہے؟ سپریم کورٹ کہتا ہے کہ قرار داد مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی اگر ہم سمجھتے ہیں کے پارلیمان سپریم ہے تو یہ کسی بھی قسم کی ترمیم کر سکتی ہے .اٹھارویں ترمیم کے بارے میں کہا کہ اس میں کچھ شق ٹھیک نہیں ہیں جیسا کہ 160(A) کلاز واضح نہیں کرتی کے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کا فارمولہ وفاق اور صوبوں کی بات کرتا ہے کہ صوبوں کے درمیان تقسیم کی. اگر ہم سمجتھے ہیں کے ہم ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہیں تو تمام ریاست کے فریقین کو ساتھ بیٹھنا چایے جیسا کہ نیشنل اکنامک کونسل ،تا کہ جموریت کو مزید خطرات سے نا گزرنا پڑے .

تمام مقررین کے خطاب کے بعد اس موضوع پر ایک مباحثاتی سیشن کا انعقاد ہوا. یہ بحث خاصی بصیرت افروز رہی شرکاء نے اس میں بھرپور شرکت کی جبکہ معزز دانشوروں نے بھرپورطریقے سے سوالات کے جواب دیے.