تحاریر

چین، امریکہ تجارتی محاذآرائی: وجوہات، مضمرات اور ترجیحات


امریکہ اور چین کےمابین اقتصادی و معاشی جنگ فی الوقت عالمی موضوعات بحث میں سرفہرست ہے. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے اپنی کامیابیوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا ہے کہ اس نے امریکہ کے چین پر بڑھتے ہوئے معاشی انحصار کو ایک بھرپور طریقے سے کم کرنےکی کوشش کی ہے.مزید براں امریکی صدر کی انتخابی مہم میں چین کے خلاف اپنائے گئے سخت اور تنقیدی روئیے کا عملی اظہار مقصود ہے. امریکہ پچاس بلین ڈالر کی باہمی ٹریڈ پر محصولات چاہتا ہے. یہ محصولات چین کے لیے ایک دھچکا ہے، ایک الارم اور امریکی اثر و رسوخ اور ایک معاشی برتری و زعم کی علامت ہے. چین نے امریکہ کے اس رویے کو بہت سخت انداز میں لیا اور چین کی طرف سے بھی گیارہ گھنٹوں کے بعد اتنی ہی امریکی تجارت پر ٹیرف/محصولات لگانے کا عندیہ دیا ہے. امریکی صدر نے اس اہم بحث اور رویے کو اپنی متعدد ٹویٹ کے ذریعے ہوا دی ہے.

اسی سلسلے کی ایک کڑی امریکی کامرس سیکرٹری ولبر روز کا دو اور تین جون کو چین میں موجود ہونا بھی ہے. اس بات چیت کو چینی وائس پریمئیر کی موجودگی میں کسی ممکنہ حل اور اختتام کی طرف لیجایا جاتا مگر یہ کچھ زیادہ سودمند نہیں رہی ہیں. چینی صدر ڏی جن پنگ نے گذشتہ اکتوبر میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین کو جلد تکنیکی میدان میں سپر پاور بننا ہے. وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے زرخیز دماغوں اور قابلیت کو بروئے کار لانا ہے. چین کو اپنے زوربازو سے دنیا کی معاشی سپر پاور بننا ہے. انکا ”میڈ ان چائنا- 2025“ پروگرام کو چین کے عوام، اور معاشی و اقتصادی ٹائیکونز کی مدد حاصل ہے. اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 مئ کو چینی ٹریڈ پر 25 % ٹیکس لگا دیے. امریکہ اور چین کے درمیان سنہ 2016 میں 578 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی تھی۔ امریکہ بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ چین پر بدنیتی اور دھوکہ دہی کے الزامات لگاتے ہیں. چین امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے دس لاکھ کے قریب امریکی شہریوں کا روز گار وابستہ ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ امریکی درآمدی ڈیوٹیاں تجارت کے لیے ٹھیک نہیں ہیں اور وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈبلیو ٹی او کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا. چین میں جاری حالیہ گفتگو بھی اسی رویے کے سبب کچھ موزوں و معقول نہیں رہی ہیں. چین اور امریکہ کے ایک دستخط شدہ معاہدے کے تحت چین، امریکہ سے گوشت کی درامد شروع کرے گا. تاہم امریکی رویے کے سبب امریکی تاجر ابھی سے ایک کشمکش کا شکار ہیں کہ چین کی طرف سے بھی گوشت کی کوالٹی کے سبب پابندی لگ سکتی ہے... ظاہری امریکی سفارتی رویے کے باوجود چین نے امریکہ سے 70 بلین ڈالر کی اجناس اور ڈیری مصنوعات خریدنے کا عندیہ دیا ہے. گذشتہ ہفتے ہونے والی اعلی' سطحی گفت وشنید اور مذاکرات میں چین نے بہت محتاط اور مدبرانہ فیصلہ سازی کی ہے. اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کسی صورت بھی امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کا خواہاں نہیں ہے. البتہ ایک معاشی سپر پاور ہونے کے سبب چین دنیا میں اپنی ساکھ بھی بحال رکھنا چاہ رہا ہے.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے ایک ٹویٹ کا حوالہ نہائیت ضروری ہے. ” ’ہم چین کے ساتھ تجارتی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ امریکہ اپنے کچھ احمق اور نا اہل لوگوں کی وجہ سے کئی برس پہلے ہی ہار چکا ہے جو امریکہ کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اب ہمیں ہر سال 500 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ہم اسے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ معاشی ماہرین اور سرمایہ کار اس بحث میں الجھن کا شکار ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی و اقتصادی جنگ مستقبل میں کس نہج اور نوعیت کی ہوگی اور اس میں مزید کتنی شدت پیدا ہو گی.

چین نے امریکی صدر کی طرف سے چینی درآمدات پر 50 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کے اعلان کے جواب میں امریکہ سے چین بھیجی جانے والی کلیدی برآمدات پر بھی اسی پیمانے کے محصولات عائد کر دیئے تھے۔ اس ردعمل پر عالمی منڈی اور تجارتی تعلقات اچانک پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے. چین کی طرف سے سویابین، ہوائی جہاز، امریکی گاڑیاں، بیف اور کیمیکلز پر محصولات کا بڑھانا ایک ایسا چینی ردعمل تھا جو کہ گیارہ گھنٹوں میں کیا گیا. صدر ٹرمپ نے اس موقع پر اچانک ہمیشہ کی طرح عالمی تجارتی سیاست کو حیران کردیا کہ چین کے اس ردعمل سے دو عالمی اقتصادی و معاشی سپر پاورز کے مابین کوئ معاشی جنگ نہیں چھڑی ہے. امریکی صدر نے مزید ایک ٹویٹ میں لکھا،

اقتصادی ماہرین اور سرمایہ کار اس الجھن میں ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی تنازعہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرے اور اس میں مزید کتنی شدت پیدا ہو جائے۔“ محصولات لاگو کرنے کی فہرست کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے تو امریکہ نے زیادہ تر غیر معروف صنعتی اشیاء کو فہرست میں شامل کیا ہے. چین نے محصولات کے لیے ایسی اشیاء کا انتخاب کیا ہے جو امریکہ کی طرف سے درآمدات کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں، جیسے سویابین، بیف، کاٹن اور دیگر کلیدی زرعی اجناس جو آیووا سے ٹیکساس تک پھیلی ہوئی ہیں اور اُن امریکی ریاستوں میں تیار کی جاتی ہیں جن کے شہریوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے تھے. وائس آف امریکہ اور بی بی سی اس موضوع پر بہت زیادہ لکھ رہے ہیں اور اقتصادی و تجارتی ماہرین کے تجزے شامل کرتے ہیں. یہ موضوع ہر طبقہ فکر کے لیے بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے اور ہر کوئ ایک مخمصے کا شکار ہے کہ کیا یہ ایک معاشی و تجارتی جنگ کا آغاز ہے؟

بیجنگ میں گذشتہ ہفتے ہونے والے اعلی سطحی امریکہ چین مذاکرات کو کسی کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا. دونوں ممالک بظاہر سخت رویہ اپنانے کا تاثر دے رہے ہیں جبکہ انکی ایک سو بلین ڈالر کی ٹریڈ پر بیان بازی مسلسل جاری ہے. چینی مواصلاتی کمپنی پر ایک بلین ڈالر جرمانہ عائد کرنا ایک اہم پہلو اور پیش رفت ہے.اس کے علاوہ عملی طور پر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ہے. یقینی طور پر ایسے اقدامات امریکہ اور چین کے مفاد میں نہیں ہیں. ان کے نتائج بے روزگاری، تجارتی بے چینی اور عدم تعاون کو فروغ دیں گے. جی سیون ممالک نے بھی امریکی صدر کی تجارتی جنگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے. امریکہ کی جانب سے ایلومینیم اور سٹیل پر درآمدی محصولات میں اضافے کے فیصلے کو ایک غیر ضروری اور ہیجان انگیز رویہ قرار دیا ہے.

جونہی چین ردعمل کے طور پر کوئ بیان دیتا ہے تو امریکی صدر کی طرف سے ایک عدد ٹویٹ جاری کر دیا جاتا ہے. گویا دیکھا جائے تو یہ پہلی اقتصادی و تجارتی محاذ آرائ ہے جو ٹویٹر پر زیادہ فعال نظر آتی ہے. صدر ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ”دوسرے ممالک امریکہ کو کئ برسوں سے لوٹ رہے ہیں اور اب ہوشیار ہونے کا وقت آ گیا ہے.“ وال سٹریٹ جنرل کی ایک 7 جون کو چھاپی گئ رپورٹ کے مطابق چین نے امریکہ کی طرف سے حالیہ محصولات پر ایک صلح جو رویہ اپنایا ہے اور امریکہ کو یہ آفر دی ہے کہ چین ستر بلین ڈالر کی فارمز اور توانائ سے متعلقہ مصنوعات خریدنے پر رضامند ہے. بشرطیکہ امریکہ مسط کیے گئے محصولات سے باز رہے.

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس(PIDE)کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان مصطفی نے اپنے حالیہ تجزیہ میں کہا تھا کہ چین اور امریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی و اقتصادی جنگ کا نقصان بالواسطہ یا بلاواسطہ محصولات شدہ مصنوعات پیدا کرنے والے اور صارفین دونوں کے لئے نقصان کا سبب ہو سکتا ہے. چین اور امریکہ کے مابین سنہ 2016 میں تقریباً 578 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی اور امریکی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس تجارت سے دس لاکھ کے قریب امریکی شہریوں کا روز گار وابستہ ہے. چین اور امریکہ کے مابین اس تجارتی محصولات اور اقتصادی جنگ کے آغاز نے سرمایہ کاروں کو بھی ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے.

دونوں ممالک کے درمیان اس مڈبھیڑ کا نقصان صرف چین اور امریکہ کے لیے ہی نہیں ہو گا بلکہ ایشیائی ممالک بھی ان نقصانات اور مضمرات کا شکار ہوں گے. اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بہت سے ممالک خام مال کی سپلائی کے لیے ایک منظم اور مربوط نیٹ ورک کا حصہ ہیں. چین کے خلاف جہاں امریکہ کی طرف سے ٹیسکسز کے اضافے کی قومی مفاد بر مبنی تجویز ہے وہیں جعلی مصنوعات بنانے کی تحقیقات بھی جاری ہیں جس کے نتائج جلد سامنے آ جائیں گے.بالخصوص امریکی مواصلاتی مصنوعات کو بنا کر ایران اور شمالی کوریا کو فروخت بھی شامل ہے. صدر ٹرمپ کی طرف سے اپنی انتخابی مہم میں چین سے تجارت پر شدید تنقید کی تھی. اب اس تنقید کا نئے سرے سے بڑھ جانا عالمی امن کے لیے بھی ایک خطرہ ہے کیوں کہ شمالی کوریا پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکہ کو چین کی سخت ضرورت ہے. اس حالیہ امریکی رویے سے کسی صحت مندانہ عالمی اقتصادی اور تجارتی رویے کو نقصان کا اندیشہ ہے.

چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ میں حالیہ پیش رفت یہ ہے کہ امریکی کامرس سیکرٹری کی جانب سے چین کی مواصلات کمپنی ZTE پر ایک بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا گیا ہے. یہ جرمانہ آج تک کے سب سے زیادہ لگائے گئے جرمانہ پر مبنی ہے. ZTE پر یہ الزام بھی ہے کہ یہ ایران اور شمالی کوریا کو امریکی جاسوسی بر مبنی ممنوعہ مصنوعات فراہم کرتی ہے.اس کے علاوہ یہ امریکہ کی جاسوسی میں براہ راست ملوث ہے. اس ڈیل کو دونوں ممالک نے منظور بھی کرلیا ہے اور CNBC کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی کامرس سیکرٹری ولبر روز نے کہا ہے کہ ایک بلین ڈالر کے جرمانہ کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ یہ بھی اس ڈیل کا حصہ ہے کہ ایک امریکی ٹیم اس مواصلاتی کمپنی کا دورہ کرے گی اور چار سو ملین ڈالر کمپنی علیحدہ سے رکھے گی جو کہ مستقبل میں کسی قانون شکنی پر بطور جرمانہ دینا ہوگا. “

سولر پینل پر لگائے گئے امریکی محصولات پر شروع ہونے والی اس تجارتی گرماگرمی پر مئی 2018 میں S&P گلوبل ریٹننگ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ اور چین کے اقدامات کے سبب یہ امریکہ میں01. فیصد تک جی ڈی پی کو کم کرنے اور اسی ہزار لوگوں کے لیے بے روزگاری کا سبب ہوگا. انہی مضمرات کے سبب امریکہ کسی بھی عملی اقدام سے مانع رہا ہے. تاہم اب ٹرمپ انتظامیہ اس بات پر مصر نظر آتی ہے کہ ہم چینی تجارتی اور سفارتی رویے کے سبب اپنی محصولاتی پالیسیوں کو ضرور عمل میں لائیں گے. وہ چین کو غیر قانونی ٹیکنالوجی کی ایران اور شمالی کوریا کو منتقلی، جاسوسی اور غیرمساواتی شرع محصول کا قصوروار ٹھہراتے ہیں. انکے نزدیک یہ قیمت عام نقصانات سے بڑھ کر ہے. اس تمام تر ہیجان اور سفارتی رویے کے پس منظر میں امریکی صدر کا زعم ، سیاسی مقاصد ، چینی عدم اعتماد کا رویہ ، جاسوسی کا اندیشہ اور معاشی برتری نظر آتی ہے.اسی سبب اب چین اپنی حیثیت کی بجاے صلح جوئ کی پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتا ہے. اس تجارتی رویے سے مستقبل قریب میں تجارتی محاز آرائی کا خطرہ ضرور ہے مگر تجارتی بحران اور جنگی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ محدود ہے.