CPSD - Commentary

پاکستان : پانی کے مسائل اور حل کے اقدامات کا جائزہ


صاف پانی تک رسائی خواہ وہ پینے ،اپنے بدن کو صاف کرنے ،کھانا پکانے یا اپنی فصل کو اگانے کے لیے ہو ہر انسان کا بنیادی حق ہے پر پاکستان میں معاملہ کچھ اور ہی دکھائی دیتا ہےآئے دن کوئی نئی رپورٹ شائع ہوتی ہے اور اس کا اخذ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان بہت جلد پانی کی بہت بڑی قلت کا شکار ہونے والا ہےجس ملک کو ہم نے اپنا پسندیدہ ملک قرار دے رکھا ہے وہ جگہ جگہ ہمارے دریاوں پر ڈیم پر ڈیم بناے جا رہا ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں نہ ڈیم بنانے کی توفیق ہو رہی ہے ، نہ ہی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس اور نہ ہی کوئی ریگولیٹری کمیٹی جو اس بات کا تعین کر سکے کہ زیر زمین پانی کی مقدار کس حد تک کم ہو چکی ہے عالمی اداروں کی شائع کردہ رپورٹز کے مطابق ۲۰۲۵ تک پاکستان میں سےپانی غائب ہو چکا ہو گااور اگر جلد از جلد مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو اس مسلے پر قابو پانا شائد ناممکن بھی ہو جائے۔ واش واچ اورگنائیزیشن کی شائع کردہ رپورٹ[۱] کے مطابق آزدی پاکستان کے وقت پاکستان میں فی صد پانی کی قدار ۵،۶۰۰کیوبک میٹرز تھی جبکہ اب وہ کم ہو کر فی صد۱،۰۱۷ کیوبک میٹرز رہ گئ ہے جو کے ایک پریشان حد تک کم سطح ہے لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کے پاس گندا پانی پینے کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں ہے پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے موجودہ حکومت کبوتر کی مانند آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے کیونکہ وہ اس بات پہ اکتفاء کرنا چاہتی ہی کہ سب اچھا ہے جبکہ عالمی اداروں کی رپورٹزکچھ اور ہی روداد بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں

ڈائریکٹر ریجنل بیورو فار سائنس ان ایشیاءاینڈ پیسیفک،ڈاکٹر شہباز خان کے مطابق[۲] ہم (پاکستان) جو اقدامات آج لے رہے ہیں ہم ان کو ۲۰ سال کی تاخیر کے ساتھ لے رہے ہیں پاکستان ۱۰۰ میں سے صرف ۱۰ گلاس پانی محفوظ کرپاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک ۱۰۰ میں سے ۴۰ گلاس پانی کے محفوظ کر رہا ہے اور اگر ہم صر ف ۱۰سے ۱۲ گلاس اور پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیں تو خاطر خواہ مثبت فر ق پیدا ہو سکتا ہےجوکہ فل حال بہت ناممکن سا عمل لگ رہا ہے پاکستان اس وقت صرف ۳۵تا ۴۰دنوں کا پانی ہی محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ دوسرے ممالک تقریبا ۴۰۰ دنوں تک کے لیے پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہاں میں اس بات کو سمجھتا ہو کہ پاکستان راتو ں رات یہ صلاحیت حاصل نہیں کر سکتا پر ہر منزل کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کبھی نہ کبھی پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہےاور اب اگر ۲۰ سال کی تاخیر کے بعد بھی ہم وہ پہلا قدم نہیں اٹھاتے تو پھر ہمیں شائد کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا کیونکہ ہمارے اپنے حکمران اس بارے میں کچھ نہ کر کے پاکستان کو کسی بھی بیرونی دشمن سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ وہ پہ درپہ میٹرو ٹرین اورمیٹرو بس جیسے غیر پائیدار منصوبہ جات پر پیسہ پانی کی طرح خرچ کر رہے ہیں

جس کو بعد میں اور بھی زیادہ سبسڈی دے کر رواں رکھنا پڑے گا اسی شہر کے لوگ ارسینک (Arsenic)سے آلود شدہ پانی پینے پر مجبور ہیں پر اس کی طرف کوئی بھی دھیان دینے کو تیار نہیں ہےپانی کے اندر ارسینک کی قابل برداشت حد صرف ۵۰ حصے فی ارب ہے جبکہ سندہ اور پنجاب کا تقریبا ء ۱۴فیصد پانی ۵۰ حصے فی ارب سے کہیں زیادہ ہے۔حکومت نے نئے ٹیوب ولز تو لگا دیے ہیں پر اگر زیر زمین پانی ہی ختم ہو جائے تو ان ٹیوب ولزسے کون سا فائدہ حاصل کیا جا سکے گا؟کیونکہ چیف آف دی پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR)،محمداشرف کے مطابق[3] زمینی پانی میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی پاکستان کے بڑے شہروں میں جلد ہی پانی کی قلت پیدا کر سکتی ہے جو کہ کسی خشک سالی سے کم نہ ہو گی۔ (PCRWR)کے تحت کام کرنے والی لیبارٹریز اپگریڈ کی گئی ہیں اس کے ساتھ ہی ۱۷ پانی کے معیار کو چیک کرنے والی لیبارٹریز ضلعی سطح پر بھی قائم کی گئی [۴] پر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کیا وہ لیبارٹریزاس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کافی بھی ہیں ؟ ۔پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے مطابق موجودہ زمینی پانی کی مقدار ۱۵ کروڑ اور ۳۰ لاکھ ایکڑ فیٹ (MAF) جبکہ پانی کے ذخائر تقریبا ء ۲۴ MAFہے اور آبادی کی بڑھتی ہوئی موجودہ شرح کے مطابق ۲۰۳۰ میں ۲۴ کروڑ تک پہنچ جائے گی جس سے پاکستان کو تقریباء ۳۱ MAF کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کا ۹۰ فیصد پانی کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پاکستان کا آبپاشی نیٹ ورک وہ نیٹ ورک ہے جو کے انگریز چھوڑ کر گیا تھا اور اب وہ اس قابل نہیں رہا کہ ابھی بھی اسی طرح سے کارگر ثابت ہو سکے اور شہروں میں استعمال ہونے والا ۱۰ فیصد پانی جو کہ زیادہ تر زیرزمین پانی پر منحصر ہے اس کی زیرزمین سطح بھی اب نیچے جاتی جا رہی ہے جس سے ارسینک (Arsenic)ر ہے کیونکہ اس کی فراہمی ذیر زمین پانی پر منحصر ہے جس کو ہماری ریاست آج تک ریگولیٹ نہیں کرسکی ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق اپنے گھر میں ایک کنواں کھدوااور پانی کا پمپ لگا کر عیاشی کرتا ہےپر وہ انفرادی سکون اجتماعی عذاب بننے والا ہے اوراسی وجہ سے حکومت اس بات کا کبھی بھی صحیح تخمینہ نہیں لگا سکتی کہ کتنا پانی زیرزمین رہ گیا ہے اور جو اندازہ لگایا جاتا ہے وہ بھی ہمشہ خطرے کی گھنٹی ہی بجاتا ہے پھر بھی اس مسلئے کے حل کے لئے کوئی خاطر خواہ عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا

سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان ا یک ایسا ملک ہے جہاں پر ہمالیہ کے پہاڑوں کا ایک بڑاحصہ شامل ہے جو گلیشیرز پر مبنی پہاڑ ہیں جن سے نکلنے والے پانی کو اگر استعمال میں لایا جائے تو اس مسلئے سے نمٹا جا سکتا ہے پر پاکستان میں پانی کو محفوظ رکھنے والے صرف ۳ بڑے پانی کے بیسن موجود ہیں پاکستان ہر سال ۷۰ارب ڈالر کی مالیت کا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اس پانی کو کہی محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ایک ایسا ملک جس کے اس وقت فورن ریزروز [۵] صرف ۱۸ ارب ڈالر ہوکیا وہ ملک اس حجم کا سالانہ نقصان برداشت بھی کر سکتا ہے یہ کرنا بھی چاہیے؟ پاکستان کو اس وقت ایک منظم اور واضح واٹر پالیسی مرتب کر کے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہےجو نہ صرف پانی کو مختلف اقسام میں بانٹے اور ہر قسم کو اس کے لحاظ سے پروسس کر کے اس کا استعمال عمل میں لائے اس کے علاوہ آبپاشی کے استعمال ہونے والے پانی کے لئے جدید طریقہ کار متعارف کروائے ورنہ امیر تو ہمیشہ کی طرح پانی خرید کر پھر بھی آرام کی زندگی گزار لے گا پر جو ۹۰ فیصد غریب عوام ہے وہ اور بھی زیادہ پستی چلی جائے اور شائد غربت ختم ہو جائے کیونکہ زندہ رہنے کہ لئے پانی چاہئے اور جب پانی سونے کے بھاو بکے گا تو نہ تو غریب زندہ رہے گا نہ غربت، کہیں ہمارے حکمراں غربت مٹانے کی اسی راہ پر گامزن تو نہیں؟


image description

احمد شیر

حمد شیرکا تعلق لاہور سے ہے فارمن کرسچن کالج سے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹری طرز کے مباحثوں میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں پاکستان کے موجودہ حالات اور اس میں رو پزیر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں پڑھنے اور لکھنے سے دلچسپی ہے