CPSD - Commentary

مقبوضہ کشمیر میں عام شہریوں کی ہلاکتیں: مزاحمت اورتحریک


اتوار 4 مارچ کی شام مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں واقع گاؤں پہنو اچانک گولیوں کی آواز سے گونج اٹھا. اس پہاڑی علاقے کے رہائشیوں کے لئے یہ آوازیں نئی نہیں ہیں کیونکہ وہ قابض بھارتی حکومت کے جابرانہ تسلط کے تحت زندگیاں بسر کرہے ہیں. تاہم یہ واقعہ جس میں چھے نوجوان کشمیری ہلاک ہو گئے حالیہ تاریخ میں ماورائے عدالت قتل کا سب سے خونریز واقعے تھا. یہ واقعہ بھارتی آرمی کی طرف سے دفاعی کارروائی کے طور پر بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کا دعوی ہے کہ ہلاک کئے گئے افراد "اوور گراؤنڈ ورکر" تھے، ایک اصطلاح جو باغیوں کی اعانت مدد کرنے والےافراد کے لئے استعمال کی جاتی ہے

انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے دو افراد باغی تھے، جو اس علاقے میں بدامنی پیدا کرنے کے لئے فعال طور پر کام کررہے تھے. یوں "ریاست بمقابلہ دہشت گردی" ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا ، جو کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کا حقیقی عکس پیش نہیں کرتا ہے. یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کسی قابض قوت کے زیر انتظام رہنے پہ آمادہ نہیں ہے

ان کا غم و غصہ اس حقیقت سے عیاں تھا کہ ہلاک کئےگیے شہریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہزاروں کشمیریوں کا سیلاب شوپیاں کی گلیوں میں امنڈ آیا. کشمیر میں ایسی صورت حال کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے بھی کشمیری آزادی کے سرگرم کارکن اور ایک کرشماتی شخصیت کے مالک نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی ریاست کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے جاری رہے

بھارتی فوج نے حالیہ مظاہروں سے نمٹنے کے لئے تشدد کا استعمال کیا ہے ، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس پھینکی اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اگرچہ ابھی تک کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں تھی ، تاہم بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بڑھتی ہوئی نفرت اس بات کی نشاندہی ہے کہ کہانی میں ایک سادہ "ریاست بمقابلہ باغیوں" کے بیانیہ سے بڑھ کر بھی کچھ ہے

حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کا بیانیہ 'جھوٹ اور پروپیگنڈا' ہے۔ ان کا یہ بیان کشمیر کے حقیقی مسئلہ کی نشاندہی کرتا ہے اور ان رکاوٹوں کی بھی جو اسے ہر ایسے وقت درپیش ہوتی ہیں جب مسئلہ ایک عوامی پلیٹ فارم پر اٹھایا جاتا ہے

اس خاص نظیر میں، ہندوستانی ریاست کی طاقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ مسئلہ سماجی اور اقتصادی پیرائے میں منتقل کرنے سے حل ہوسکتا ہے. کشمیری تارکین وطن کو اس تحریک مزاحمت کی مالی معاونت کرنی چاہئے اور اشتہار ات کے ذریعے دنیا بھر میں اس کے لئے ترغیب کاری کرنی چاہئے. اسی طرح کا ایک حربہ بھارت کی طرف سے استعمال کیا گیا تھا جب آزاد بلوچستان بل بورڈز انگلینڈ میں دیکھے گئے تھے

اس پروپیگنڈا گیم میں مسلسل سرمایے کی ضرورت ہے جس کے لئے کشمیری تارکین وطن کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے. سماجی پہلو پر سوشل میڈیا مہمات اور رائے سازوں کے ذریعہ مزید توجہ دے سکتے ہیں جو کشمیر کے بنیادی مسئلے پر توجہ مرکوز کریں اوریقینی بنائیں کہ کہانی کا دوسرا رخ پوشیدہ نہ رہے.چونکہ کشمیر کا مسئلہ بہت زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے، اس لئے جوابی بیانیہ کی تشکیل اور اس کے استقرار کے لئے سماجی اور معاشی معاونت ضروری ہے

یہ دور ایک قسم کی نفسیاتی جنگوں کا دور ہے، اس طرح مسلح کاروائیوں کی بجائے جن سے نقصان دونوں اطراف کا ہوتا ہے ایک انسدادی تحریک کی ضرورت ہے جسے خود کشمیر کے لوگ سماجی اور معاشی محاذوں پر جاری رکھیں . اس اقدام سے ایک ٹھوس مزاحمت کی تعمیر ممکن ہوگی، جو ہندوستانی بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لئےبے حد ضروری ہے