تحاریر

پاکستان میں جاری نظام صحت کی کشمکش اوراس کی بہتری کےلئے ممکنہ حل


نظام صحت کا اولین اور اہم ترین جزو اس کا مشن اور حکمت عملی ہے.مگرحالیہ برسوں میں محض کسی وبا کے ردعمل کے طور پہ مرتب کردہ صحت پالیسی کے رجحان کو دیکھا گيا یا پھر وہ جو بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے نافذ کیا گیا .گوکہ پاکستان کی نیشنل ہیلتھ سروسز میں متعدد مخصوص پروگرام برائے ہیپیٹائٹس، ایڈز، ٹی بی، ملیریا، انفلوینزا، انفیکشن کنٹرول، امیونائزیشن کے لئے توسیعی پروگرام، مربوط پروگرام تولیدی صحت ،زچہ بچہ، وچائلڈ ہیلتھ پروگرام اور پنجاب غذائیت پروگرام (آئی۔آر۔ایم۔این۔سی۔ایچ اور این پی) اور پولیو اور ڈینگی پر خصوصی مہمات شامل ہیں

مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ، پاکستان اپنی صحت کی پالیسی کے لئے غیر متعین اغراض اور مقاصد رکھتا ہے. حالیہ دنوں پاکستان نے اقوام متحدہ میں جاری پائیدارترقیاتی اہداف (STGs) پر دستخط کیے جہاں ہدف نمبر3 کے تحت اچھی صحت اوربہبود کے ضمن میں منتقل ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنا، عالمی صحت کی دیکھ بھال اور 2030 تک محفوظ اور مؤثر ادویات اور ویکسین تک رسائی فراہم کرنا پیش نظررکھا گیا ہے. تاہم یہ ایک غیر حقیقی ھدف ہے جسے خواہ بطورانتہائی سیاسی ترجیح نافذ کیا جائے ، اس پہ بے دریغ پیسہ خرچ کیا جا‎ئے یا جارحانہ قوت سے نافذ کرنے کی کوشش کی جائے حاصل نہیں کیا جاسکتا

حل یہ ہے کہ صحت کے اہم مسائل کی نشاندہی کی جائے، انہیں قابل عمل اہداف میں بانٹ دیا جائے، اثرات اور مشکلات کے تجزیہ کے مطابق ترجیحی مسائل کا انتخاب کریں اور مختلف علاقوں کے آبادی کی ضروریات کے مطابق ان کو ڈھالا جائے، ہر علاقے میں ہر مسئلے کے لئے کامیابی کے امکانات کا تخمینہ لگا کر موثر ترسیل اور عمل درآمد کے لئے حل پیش کریں.

پاکستان میں نظام صحت کا بنیادی ڈھانچہ ایک درخت کی مانند ہے جس کی وسیع ترجڑیں 3 شاخہ ساخت تک پھیلی ہوئی ہیں : بنیادی دیکھ بھال (آؤٹ ریچ اور کمیونٹی کی خدمات)، ثانوی دیکھ بھال اور تیسرے درجے کی دیکھ بھال. بنیادی دیکھ بھال ، بی ایچ یوز (بنیادی ہیلتھ یونٹس) آر ایچ سیز (دیہی ہیلتھ سینٹر) جو کہ بالترتیب 25000 اور 000،100 افراد کی ملحقہ آبادی اور ڈسپینسریوں پر مشتمل ہے. ثانوی صحت کی دیکھ بھال ( ٹی ایچ کیواور ڈی ایچ کیو) تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں پہ مشتمل ہے پر جو بالترتیب 0.5-1 ملین اور 1-3 ملین افراد پہ محیط ملحقہ آبادی کی خدمت کر رہے ہیں. جبکہ تیسرے درجہ کا نظام صحت ٹیچنگ اسپتالوں اور خصوصی ہسپتالوں پر مشتمل ہے

پاکستان میں نظام صحت کا بنیادی ڈھانچہ ایک درخت کی مانند ہے جس کی وسیع ترجڑیں 3 شاخہ ساخت تک پھیلی ہوئی ہیں : بنیادی دیکھ بھال (آؤٹ ریچ اور کمیونٹی کی خدمات)، ثانوی دیکھ بھال اور تیسرے درجے کی دیکھ بھال. بنیادی دیکھ بھال ، بی ایچ یوز (بنیادی ہیلتھ یونٹس) آر ایچ سیز (دیہی ہیلتھ سینٹر) جو کہ بالترتیب 25000 اور 000،100 افراد کی ملحقہ آبادی اور ڈسپینسریوں پر مشتمل ہے. ثانوی صحت کی دیکھ بھال ( ٹی ایچ کیواور ڈی ایچ کیو) تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں پہ مشتمل ہے پر جو بالترتیب 0.5-1 ملین اور 1-3 ملین افراد پہ محیط ملحقہ آبادی کی خدمت کر رہے ہیں. جبکہ تیسرے درجہ کا نظام صحت ٹیچنگ اسپتالوں اور خصوصی ہسپتالوں پر مشتمل ہے

3 ملین کی موجودہ آبادی کے ساتھ ، یہ نظام دیہی اور شہری علاقوں کی آبادی تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بناتا ہے. مسئلہ تاہم اس مجوزہ دیوہیکل بنیادی ڈھانچے کی فعالیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے. اس سہ شاخہ ترکیب میں، اس کی بنیادوں کو سب سے کم سرمایہ اور افرادی قوت فراہم کی گئی ہے. صحت کے لئے مختص کردہ قلیل بجٹ کو غیرمنصفانہ طورخرچ کیا جاتے ہوئے تیسرے درجے کے ہیلتھ کیئر سینٹروں اور ریاست کے بڑے شہروں میں قائم ثانوی صحت کے مراکز کو دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ مریضوں کی بھیڑ میں عدم توازن پیدا کرتا ہے جو انہی مراکز پربھٹکتے رہتے ہیں۔

مندرجہ بالا مسائل کا حل یہ ہے کہ فنڈز کی دوبارہ تخصیص کی جائے، اعلی سطحی ہیلتھ کیئر کی بجائے بنیادی سطح پر کوٹا میں اضافہ کرنا چاہئے. تمام بی ایچ یوز، آر ایچ سی اور ایم ایچ سیز (ماں اور بچے کی دیکھ بھال کے مرکز) کے ساتھ ساتھ ٹی ایچ کیوز اور ڈی ایچ کیوز کی ری ویمپنگ کرنا خاص طور پران علاقوں میں جہاں ہیلتھ کیئر تک رسائی بہت کم ہے. سپیشلائزڈ ہسپتالوں کی مجموعی استعداد کار کو پاکستان بھر سے آنے والےمریضوں کی کثرت کے باعث بڑھایا گیا ہے جواعلی اور معیاری طبی نگہداشت حاصل کرنے کے لئے ان مراکز کا رخ کرتے ہیں . تاہم، اس سے خدمات کا معیارناقص ہوگیا ہے۔

اگر بی ایچ یوز اور آر ایچ سیزاس طرح سے تعمیر کیے جاتے کہ ان میں بالترتیب 25000 اور 100000 افراد کی رسائی ممکن ہوتی ، تو سوائے ایمرجنسی کے، مریض ان مراکز کی طرف جانے کی بجائے اپنے لئے مخصوص کردہ مراکزمیں جاتے . شروعات کے لئے، تمام مراکز صحت ان کے نامزد مریضوں کا ایک ڈیٹا بیس رکھیں جو علاج میں مدد ، پیروی اور مثبت طبی نتائج فراہم کرے گا . ایک منصوبہ زیر نظر ہےکہ تمام شہروں میں بی ایچ یو قائم کرنے کئے جائیں حتی کہ متعدد سپیشلائزڈ ہسپتالوں کا قیام بھی زیر غور ہے کہ جہاں مریضوں کو درکارعلاج کی ضرورت اور نگہداشت کے مطابق ان کی درجہ بندی کرنے میں مدد ملے گی. اس طرح صرف وہ مریض جن کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے خصوصی ہسپتالوں کو بھیجے جائیں اور کے ساتھ معتدل مریضوں کو یعنی اوپی ڈی لوڈ کو تقسیم کیا جائے گا. یہ نہ صرف بنیادی سطح پر دیکھ بھال کے لئے فنڈز کی بہتر تقسیم میں معاون ثابت ہوگا بلکہ مریضوں تک رسائی کو بھی آسان بنائے گا

ایک اور مسئلہ، تمام بنیادی دیکھ بھال کے مراکز کے لئے قابل میڈیکل ٹیموں اور متعلقہ عملے کی فراہمی ہے جبکہ ان مراکز کا قیام اور ان کو چلانے میں درپیش مشکل میں سیکورٹی معاملات کا بھی دخل ہے. سرکاری میڈیکل اداروں میں بڑی تعداد میں داخلہ لینے والی خواتین طالبات میں سے کچھ ڈگری مکمل کئے بغیر چھوڑ دیتی ہیں، کچھ جوان میں سے تعلیم مکمل کرلیں تو انہیں پریکٹس کی اجازت نہیں ملتی جبکہ کچھ اپنی مرضی سے ملازمت نہیں کرتی ہیں. ان میں سے تقریبا نصف ایسی ہوتی ہیں جو آگے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ تک پہنچ پاتی ہیں. جب ان خاتون ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں واقع آر ایچ سی اور بی ایچ یو کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو، وہ کبھی سماجی اورکبھی سیکورٹی کے وجوہات کے باعث اس پرعملدرآمد نہیں کرتیں. پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی ان کے لئے یہ زیادہ نفع بحش ہوتا ہے کہ وہ دیہی علاقوں کے بجائے بڑے شہروں کے ٹیچنگ ہسپتالوں یا خصوصی ہسپتالوں یا پھر چھوٹے شہروں میں ہی رہيں.

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، عملی طور پر فعال افرادی قوت کا ہونا نہایت ضروری ہے. اگر طبی یونیورسٹیوں کے ہر بیچ میں، کم سے کم 60٪ گریجویٹ بے کار ہیں تو یہ ڈاکٹروں کی مانگ اور فراہمی میں فرق پیدا کرتا ہے جوصحت کے شعبے میں وسعت اور ترقی کی شرح کو کم کرنے کا باعث بن رہا ہے اوریہ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک صورت اختیار کرتا جاتا ہے

اگرچہ سماجی طور پر اس تصورکو پزیرائی یا مقبولیت حاصل نہیں ہے ، لیکن اس وقت اس مقام پر، ہرجگہ اورخصوصا میڈیکل طلباء کے لئے مرد طلباء میں اضافے کے ساتھ مرد / خاتون کوٹہ رکھنا ضروری ہے ، چونکہ ایسی کسی بھی اصلاح کو فوری طور پر عدالت میں صنفی امتیاز کے طور پر عدالت میں چیلنج کردیا جاتا ہے اورحکم واپس لے لیا جاتا ہے. لہذا، قابل عمل راستوں میں سے ایک یہی بچتا ہے کہ داخلہ کے عمل میں تبدیلی لائی جائے ،کہ جہاں تعلیمی کارکردگی،رجحان، عقل، ذھانت اور مستقبل میں امکان پزیری کی بنیاد پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے. مزید برآں، فارغ التحصیل طلباء کو ایک نشست برباد کر نے کی پاداش میں مالی لحاظ سے سزائیں دی جانی چاہئے. ایسے کیسز کے لیے مناسب تحقیقات کا طریقہ کار طے ہونا چاہئے اور اس کے مطابق سزا کا اطلاق ہونا چاہئے. اس سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ صرف سنجیدہ اور قابل قدر امیدوار نامزد ہوں، جو مستقبل میں نظام کے لئے کارآمد ثابت ہوں. کسی ڈاکٹر کے لئے پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے کو یہ لازمی قرار دینا چاہئے کہ وہ کم از کم 2 سال آر ایچ سیز / بی ایچ یوز میں خدمات انجام دے. کسی خدمت کی ترغیب دلانے کے لئے اسپیشلائزڈ ڈاکٹروں اور متعلقہ عملے کو اضافی مراعات کی پیشکش کی جانی چاہئے ، اگرچہ مناسب تحفظ اور اضافی سروسز بھی ہمراہ ہوں

تمام سرکاری مراکز صحت اس بات سے قطع نظر کے نظام میں ان کا درجہ کیا ہے فی الحال مفت ادویات کے بینرتلے کام کر رہے ہیں. یہ پہلے ہی سے محدود بجٹ کو مزید مختصر کرتا ہے اور چاہے وہ مریض کے تعاون کا معاملہ ہو یا مثبت تشخیصی نتائج ،حتی کہ مریض کی اطمینان کے سلسلے میں بھی یہ کو‏ئی نمایاں بہتری نہیں لا سکا. "مفت ادویات" کے بجائے جس پر پوری طرح عمل درامد بھی نہیں کیا گیا ، حکومت کو "سستی ادویات" کے بینر کے تحت کام کرنا چاہئے. اس سے مریضوں کو معیاری ادویات موجودہ تجارتی قیمتوں سے کم میں دستیاب ہوں گی. فارمیسی ماہرین جو دواسازی اقتصاد پر مہارت رکھتے ہوں کے تعاون سے اس مسئلے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے

اس سے علاج معالجے کی قیمت ہماری پہنچ میں ہوگی. حالیہ چند برسوں میں دواسازی کے شعبے میں ادویات کی قیمتوں میں سالانہ اضافہ ہی دیکھا گیا ہے ، حکومت کو اس سالانہ افراط زر کو کنٹرول کرنا چاہئے. ہم جعلی اور غیر معیاری ادویات کے مسئلے سے بھی نبرد آزما ہیں. 2012 میں ڈریپ کی تشکیل اور ڈرگ کورٹس کے قیام کے بعد سے اصلاحات کی جا رہی ہیں اور ان کو قابل دست اندازی جرائم کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے قانون میں تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ مناسب سزا اور قانونی کارروائی کا جواز ہو

اس کے باوجود بہت ضرورت ہے کہ ہم ادویات اور آلات کے معاملے میں خود کفیل بنیں، خاص طور پر جو ہسپتالوں میں عام استعمال ہوتے ہیں. ادویات کے لئے خام مال دیگر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے اور اس وقت ایک بھی فعال جزو پاکستان میں تیارنہیں کیا جاتا. یہی معاملہ سرجیکل علاج میں استعمال ہونے والے آلات ، نگہداشت اور تشخیصی مقاصد کے لئے ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے سامان کے ساتھ ہے. جب تک کہ یہ اجزاء مقامی طور پر تیار نہ کیے جائیں، صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو چلانے کی لاگت کم نہیں کی جا سکتی

تین رکنی نقطہ نظر کو 4 رکنی ماڈل پر ترقی دی جاسکتی ہے، جس میں حفاظتی صحت چوتھا ستون ہے. یہ کافی وسیع الاطلاق قسم ہے لیکن اگر شروع ہو تو، ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہو سکتی ہے. طبی نگہداشت فراہم کرنے والا سرکاری دائرہ ایک ڈاکٹر، نرس، فارماسسٹ اور پیرامیڈیکل سٹاف پر مشتمل ہوتا ہے .؛ پاکستان میں فی الحال یہ حلقہ ہسپتالوں میں کام کرنے والے صرف چند ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف سے وابستہ ناکافی افراد کے ساتھ تقریبا نامکمل ہے. صحت عامہ اور کمیونٹی میڈیسن میں شامل انتہائی عدم توجہی کا شکار حفاظتی صحت کے شعبے میں پبلک ہیلتھ ایجوکیشن کے زریعے سے بنیادی سطح پر اصلاح کی ضرورت ہے. فارماسسٹ اصولی طور پر کمیونٹی فارمیسی میں رکھے جاتے ہیں، لیکن فی الحال ان کا کردار محض ایک بہت زیادہ تعلیم یافتہ ادویات سٹور کیپر تک محدود ہے.اگر کمیونٹی فارماسسٹ کوٹی ایچ کیوز اور ڈی ایچ کیوز کے ساتھ ساتھ موجودہ پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم میں ضم کر دیا جاتا ہے جیسے کہ بنیادی مراکز صحت،آر ایچ سیز،آوٹ ریچ اور کمیونٹی خدمات، تو کمیونٹی میڈیسن اور صحت عامہ کا ایک فعال اور قابل عمل نظام نافذ کیا جا سکتا. اداروں کے درمیان تعاون کے ساتھ اگر یہ نظام مناسب طریقے سے نافذ کیا جائے تو، کوئکری کی علت سے ہمیشہ کے لئےچھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے. اس کے لئے تمام ہیلتھ کیئر پروفیشنلزکی تربیت آبادی مرکوز نقطہ نظر کے ساتھ ایک بالکل نئے زاویہ سے ضروری ہو گی جوکہ آبادی کی سماجی ،ثقافتی اور آبادیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ہو۔

صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ تمام افراد کے پاس ایک واضح فرائض نامہ اور کام کی تفصیل ہونی چاہئے. اس کے علاوہ، مناسب احتساب کا نظام متعین ہونا چاہئے جو پیشہ ورانہ کارکردگی اور طرز عمل کے ذریعہ جانچا جائے گا. موجودہ نظام کے برعکس، جہاں آپ ایک باراگر داخل ہوجائیں، توآپ ہی آپ ہیں اور زمین پر کوئی طاقت آپ کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتی، خواہ آپ جیسی بھی کارکردگی یا رویہ رکھیں. سالانہ بورڈوں کو منظم کیا جاسکتا ہے، اور مریض کی آراء کو صحت کے پیشہ سے وابستہ افراد کے آئندہ کامیاب کیریئر کے امکانات کے لئے اہم ہونی چاہئے

ایک اور اہم مگر نظر اندازکیا گیا شعبہ ذھنی صحت کی دیکھ بھال کا ہے.خطرناک شرح سے عام ہوتے ہوئے ذہنی عوارض کو ہمارے ہاں سب سے کم توجہ دی جاتی ہے ، اورنہ ہی پیشہ ور افراد کو ان مریضوں سے نمٹنے کے لئے قابلیت اور تربیت دی جاتی ہے. یہ بہت حساس اورتشویشناک موضوع ہے جو فوری طور پر لائم لائٹ میں لایا جانا ضروری ہے. اس وقت یہ ضرورت ہے کہ نفسیاتی طریقہ علاج کو تمام مریضوں کو عام کیا جائے کیونکہ ادویات ذہنی خرابیوں کے لئے فرسٹ لائن علاج نہیں ہے

طبی تحقیق ایک ایسا میدان ہے، جہاں پاکستان اپنی مقامی بیماریوں کے لحاظ سے باقی دنیا سے کافی پیچھے ہے. انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طالب علموں کی جانب سے میڈیسن، فارمیسی، نفسیات اور غذائیت وغیرہ کے میدان میں ابھی بہت کم تحقیق ہو پائی ہے. جب کہ بین الاقوامی معیارتحقیق کے مطابق معیاری طبی تحقیق اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے. یہ تحقیق زیادہ تر بڑے شہروں میں واقع تدریسی ہسپتالوں میں منعقد کی جاتی ہیں. تاہم تحقیق کا دائرہ تمام حلقوں میں پھیلانے کی ضرورت ہے. اگر صحت کی دیکھ بھال کا مجوزہ نظام فعال ہو جاتا ہے تو، اس نظام کے تمام اراکین کی طرف سے معیاری دستاویزات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں تاکہ تمام افراد ان بیماریوں اور ان کے علاج خاص طور پر اپنی آبادی کے لحاظ سے تحقیقات میں حصہ لیں.

ہم ایک ترقی پذیر قوم ہیں اورہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے جبکہ موجودہ نظام صحت ابھی درجہ کمال سے دور ہے. اس کے باوجود ہر شخص کم از کم اتنا فرق لا سکتا ہے کہ ہر طرح کے حالات میں اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اپنے فرائض باحسن ادا کرے . تبدیلی ناگزیر ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے بہتر بناتے ہیں یا بدتر. حوصلہ افزا عنصر یہ ہے کہ نقطہ آغاز کے طور پر، ان میں سے کچھ حل پہلے سے ہی زیرعمل ہیں اور آنے والے سالوں میں ہم امید کرتے ہیں کہ ہم اپنے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں بہتری لاسکیں گے.


Karachi HealthCare Improvement Healthy Pakistan Health Policy Prosper Pakistan

Healthly environment