ااٹھارویں ترمیم: مشکلات اور مواقع

اٹھارویں ترمیم: مشکلات اور مواقع



کراچی میں واقع تھنک ٹینک سینٹر فار پیس، سیکیورٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کی جانب سے اٹھارویں ترمیم کے موضوع پر ایک گول میز کا انعقاد کیا گیا جس میں علمی، سیاسی، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے اراکین نے موضوع کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ تقریب کا استقبالیہ ادارے کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر جناب عمر خان نے پیش کیا۔ سابقہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور رئیس کلیہ برائے قانون دادابھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی نے صوبائی لیجسٹلیٹو لسٹ کے ذریعے صوبائی خودمختاری کے قیام پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کنکرنٹ لسٹ کی منسوخی ابہام کا باعث بن سکتی ہے اس لیے صوبوں کے قانونی اختیارات واضح ہونا چاہیے۔

سابقہ جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) شائق عثمانی نے صدارتی طرز حکومت کے ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ساتھ شفاف نظام حکومت کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ معروف صحافی جناب مظہر عباس کا کہنا تھا کے جمہوریت کے صحیح معنوں میں قیام کے لیے بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا اٹھارویں ترمیم کے بارے میں کہنا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے باعث بلوچستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکا ہے۔ جناب تیمور ملک نے آرٹیکل ٍ160 کے شق 3-اے میں موجود ابہام پرروشنی ڈالی۔ اسٹنٹ پروفیسر جامعہ کراچی ڈاکٹرمعیز خان نے اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے ہونے والی مالیاتی مشکلات پر زیر حاصل گفتگو کی۔ تقریب کے اختتام ہر مباحثاتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں معزز مقررین کے ساتھ ساتھ حاضرین نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔