Research Article

سندھ کے ماحولیاتی امراض کے علاج کے لئے موجودہ نظام صحت کی استعداد


سندھ مغرب کی جانب ایرانی سطح مرتفع کی سرحد سے ملحق، جنوب وسطی ایشیا کے مغربی کونے پر واقع ہے. جغرافیائی لحاظ سے یہ پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا صوبہ ہے جو تقریبا 579 کلومیٹر شمال سے جنوب کی طرف اور 442 کلومیٹر (انتہائی) یا 281 کلومیٹر (اوسط) مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پاکستان کے کل رقبے کے 140.915 مربع کلومیٹر (54،408 مربع میل) علاقے پر محیط ہے . سندھ مشرق کی جانب سے صحرائے تھر ، مغرب میں کوہ کیرتھر اور جنوب میں بحیرہ عرب سے گھرا ہوا ہے. اس کے مرکز میں دریائے سندھ کے ارد گرد ایک زرخیز میدان ہے۔[1] سندھ کی آب و ہوا شدید گرم موسم گرما اور معتدل موسم سرما کے لئے معروف ہے. سندھ کا صوبائی دارالحکومت پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز کراچی ہے

سندھ کی آبادی

پاکستان میں 2017 کی مردم شماری میں، سندھ کی آبادی میں 30.44 ملین سے 47.89 ملین تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ جو 1998 سے 2017 تک سالانہ اوسط 2.41 کی شرح سے بڑھ رہی ہے. پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے 10 شہروں کی فہرست میں کراچی 14.91 ملین آبادی کے ساتھ سب سے اوپر تھا اور حیدرآباد 1.73 ملین آبادی کے ساتھ 8 ویں گنجان آباد شہر کے درجے پر گیا ہے

اس تیز ترین اضافہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، صحت کی خدمات میں بمشکل ایک مختصر سا اضافہ ہوا جب کہ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کم از کم ایک متساوی بقدر تناسب اضافہ ہونا چاہئے

موسمیاتی تبدیلیاں ، قدرتی آفات ، آب و ہوا میں تبدیلی کا خطرے اور انسانی صحت پر اثرات

پاکستان میں صحت کثیر جہتی عوامل پر منحصر ہے. 2012 میں ہونے والے ایک مطالعہ میں پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات اور انسانی صحت پر اس کے اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے.[4] نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ میں زرعی جغرافیائی زون جس کو کپاس-گندم سندھ کہا جاتا ہے ، اس میں مندرجہ ذیل اضلاع شامل ہیں: گھوٹکی، حیدرآباد، خیرپور ، میرپور خاص ، نواب شاہ ، نوشہرو فیروز ، سانگھڑ ، سکھر ، تھرپارکر اور عمر کوٹ۔ یہ اضلاع موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور اس خطرے کے باعث سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں ، اور اسی طرح سماجی - اقتصادی طور پر کشیدگی والے علاقوں میں شامل ہیں

پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع، بڑے زرعی اور آبی وسائل انحصار کی وجہ سے انتہائی غیر محفوظ ہے، نہ صرف روزگار کے مقصد کے لئے بلکہ ملک کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جہاں کم فی کس آمدنی، پھیلی ہوئی غربت اور رہنے کی ناکافی سہولیات کے ساتھ ساتھ برے حالات سے نمٹنے کے ناقص نظام موجود ہیں جن میں مانیٹر کرنے کے نظام اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے نظام شامل ہیں، جو ناکافی حفاظتی انتظامات اور ناکام مطابقت کی اہلیت کا باعث ثابت ہوتے ہیں

سندھ 2013 سے خشک سالی جیسے حالات اور 2014 کے بعد سے مکمل خشک سالی سے دوچار ہے . تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ خشک سالی سے متاثر ہونے والے اضلاع تھے. مسلسل تین سالوں سے زائد عرصے تک اوسط سے کم بارش ہونے کے باعث اناج کی پیداوار میں انتہائی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے. پانی کی کمی ، چارہ اور بھیڑوں کی چیچک کی وبا چھوٹے جانوروں کی موت کا باعث بن رہی ہے

خشک سالی کے باعث پانی سے پیدا ہونے والے اور وبائی امراض میں اضافہ ہوا ہے، اور قریبی علاقے میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث بہت سے بچے اور بالغ کی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں. خشک سالی سے صحت کو خطرات لاحق ہیں جیسے کہ غذائی قلت اور بڑے پیمانے پر ناقص غذا کی وجہ سے خون کی کمی ، اسقربوط اور شب کوری جیسی بیماریاں ہوتی ہیں

بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور فضا میں نمی کی سطح میں اضافہ گرمی کی لہروں کا باعث بن رہا ہے جو گرمی سے پیدا ہونے والے امراض اور اموات کے ساتھ ساتھ حشرات سے پھیلنے والی بیماریاں( ویکٹر بورن ڈیزیزز) جیسے کہ ڈینگی بخار، دماغ کی سوزش (انیسفالائٹس) ، ملیریا اور زرد بخار کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہیں. ایک تحقیق کا اندازہ ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں 3-4 سینٹی گریڈ تک اضافہ ڈینگی کے وائرس کی افزائش کی شرح کو دوگنا کر سکتا ہے. [6] حشرات سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں جن میں اضافہ ہونے کا امکان ہے ان میں شاگس بیماری ، مرض تورق لونیہ(اسکسٹوسومیاسس )، دریائی اندھا پن شامل ہیں اور " مرض النوم " بھی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے

سانس کی بیماریاں خصوصا دمہ ، ہوائی آلودگی سے پھیل رہی ہیں، پولن اور دیگر ایروالرجن لیول ، امراض قلب خاص طور پر معمر افراد اور غریب آبادی میں پھیل رہےہیں۔

مسئلہ پانی

سندھ میں فی الحال پانی کی استعداد اس کی طلب کے مقابلے میں محض 50 فیصد ہے، یہ طلب دن بدن بڑھ رہی ہے. ناکافی پانی کے وسائل، پرانی ٹرانسمیشن لائنیں ، لیکج اور پانی مافیا کی طرف سے پانی کی چوری پہلے ہی سے ناکافی پانی کو مزید کم کر دیتے ہیں. کراچی دنیا میں 6 واں پانی کی شدید قلت کا شکار شہر ہے

مسئلہ نہ صرف "مقدار" بلکہ پانی کے "معیار" کے ساتھ بھی ہے. سندھ کے 13 اضلاع میں سطح زمین سے اور زیر زمین ذرائع سے جمع کئے گئے پانی کے نمونے،جن میں کراچی کے تمام چھے اضلاع بھی شامل ہیں ، انسانی ضروریات کے لئے ناقابل استعمال پائے گئے ہیں

اس کے علاوہ، تازہ پانی کی ذرائع کی آلودگی بشمول بڑی نہریں اور جھیلیں جیسے کہ منچھر مستقل آلودگی یا گھریلو اور صنعتی فضلہ کے مسئلے سے دوچار ہیں. جھیل بحالی کی منتظر ہے اور یہ عمل ہزاروں ماہی گیروں کی معیشت کو بحال کر سکتا ہے جن کی گزر بسر اس پر منحصر ہے

ایک ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کی رپورٹ جس کا موضوع تھا "خطرے سے دوچار پاکستان کے آبی وسائل"، کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں 20 سے 40 فیصد بستر پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے بھرے ہیں جو کل اموات میں سے ایک تہائی کی وجہ بنتی ہیں . پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر اقتصادی نقصانات کا باعث بھی بنتی ہیں

پانی کی یہ کمی ناقص حفظان صحت اور طرزذندگی کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں پانی سے پیدا ہونے والی متعدی بیماریاں جیسے کہ ہیضہ، اسہال ، پیچش، معدہ اور چھوٹی آنت کی سوزش( گیسٹرینٹائٹس) ٹائیفائڈ ، ملیریا، ڈینگی، جلد کی بیماریاں؛ آنکھوں کی بیماریاں، شدید تنفس کی بیماریاں، ذہنی بیماریاں، گردوں اور جگر کی بیماریاں پھیلتی ہیں

عام بیماریاں

بیماری کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز کے مطابق، انسانی اموات کے اہم ترین دس وجوہات ہیں وہ ہیں وقف الدم دل کی بیماری 8 فیصد، کینسر 8 فیصد، نظام تنفس کی بیماریاں 8 فیصد ، سٹروک 6- 5 فیصد ، دستوں کی بیماری 6 فیصد ، شیرخوار بچوں میں دماغی سوزش 5 فیصد ،مزمن مسدودی پھیپھڑی مرض (کرانک اوبسٹرکٹیو پلمونری بیماری )5 فیصد ، ٹی بی 5 فیصد ، پری ٹائم پیدائش کے پیچیدگیاں 4 فیصد اور ذیابیطس 3 فیصد . [11] 2010 میں وائرل ہیپاٹائٹس پر ہوئے مفصل مشاہدے میں فراہم کیے گئے اعداد و شمار صوبہ سندھ کے لئے ایک پریونشن اینڈ کنٹرول مہم سے جڑنے کا باعث بنے. جنوری 2012 میں نمونیا کے پھیلاؤ کی تحقیقات کی شروعات ایک کمیونٹی کی سطح پر شدید غذائی قلت پروگرام میں بچوں کے اندراج کی وجہ بنی

محکمہ صحت، حکومت سندھ

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، جون 2011 میں وزارت صحت کی تحلیل کے ساتھ صحت کے شعبے کو مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیا گیا تھا 18ویں (دستوری) ترمیم 2010 کے ایکٹ کا نفاذ پاکستان میں صحت کے شعبے سمیت تمام سماجی شعبوں کے لئے صوبائی خود مختاری کا باعث بنا.

صوبے اب صحت کی دیکھ بھال سے متعلق تمام افعال کے انتظامی، تنظیمی امور اور ان پر عملدرآمد کروانے کے لئے ذمہ دار ہیں. صحت کے شعبے کے لئے ایک بین الصوبائی متفقہ فہرست کو صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک پل کے طور پر مقرر کیا گیا ہے جس میں شامل بین الاقوامی معاہدوں، ڈرگ لائسنسنگ، رجسٹریشن اور قیمتوں کا تعین جیسے افعال، اشیاء اور خدمات کی برآمد و درآمد ، اور پیشہ ورانہ کونسلوں جیسے پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل، نرسنگ کونسل اور فارمیسی کونسل جیسے وفاقی امور کو وفاق کی سطح پر مشترکہ طور پر انجام دینے کا دائرہ اختیار مانا گیا ہے. اہم افعال خاص طور پر ترجیحات کا تعین اور حکمت عملی وضع کرنا ، ریگولیشن ، تخصیصی پروگراموں کا انتظام اور وفاقی سرمائے سے چلنے والی سہولیات اور اقدامات کی دیکھ بھال کو صوبائی ذمہ داریوں کے طور پر مانا گیا ہے

سندھ میں موجودہ حالیہ طبی انفراسٹرکچر

پرائمری صحت کی دیکھ بھال، دیہی صحت کے مرکز، بنیادی صحت یونٹس، ڈسپینسریاں ، ماں اور بچے کی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز، ذیلی ہیلتھ سینٹرز / کلینکس، ہومیوپیتھک ڈسپینسریاں، شہری صحت مراکز اور یونانی شفاخانے کل 1782 سہولتیں مہیا کر رہے ہیں. ثانوی صحت کی خدمات میں 90 سہولیات، تحصیل ہیڈکوارٹر، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اور خصوصی ہسپتال شامل ہیں. صوبہ سندھ میں ٹرشری سطح پر صرف 8 سہولیات موجود ہیں. [13] تاہم یہ "فعال اور کام کرنے والی خدمات" کے حقیقی اعداد و شمار نہیں ہیں

14 خصوصی پروگراموں میں بشمول نیشنل پروجیکٹس جیسے کہ امیونائویشن پر توسیعی پروگرام، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام، ماں اور بچہ ہیلتھ کیئر پروگرام، رول بیک ملیریا، ایچ آئی وی / ایڈز کنٹرول پروگرام، ڈینگی کنٹرول اور روک تھام کے ساتھ سندھ کے مخصوص منصوبوں میں ورلڈ فوڈ پروگرام، ہیپاٹائٹس فری سندھ پروگرام، پبلک و نجی شراکت داری صحت اقدامات، ٹی بی کنٹرول، سی ڈی ڈی اور چائلڈ ہیلتھ، محفوظ انتقال خون اتھارٹی، بلائنڈنس کنٹرول پروگرام اور چائلڈ سروائول پروگرام شامل ہیں ڈونر / غیر ملکی امدادی منصوبوں میں جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (یو ایس ایڈ)، چلڈرن ہسپتال نارتھ کراچی (جایکا)، ریجنل بلڈ بینک (KFW / جرمن گرانٹ) کے لئے مالی تعاون شامل ہے اور غذائیت سپورٹ پروگرام سندھ (ورلڈ بینک) اور چائلڈ ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ سکھر (کوریائی) کے لئے قرض شامل ہیں

صحت کی حکمت عملی اور بجٹ

سندھ میں شعبہ صحت نے ایک تفصیلی منصوبہ وضع کیا ہے. شعبہ صحت سندھ صحت کی حکمت عملی برائے 2012-2020. یہ 169 صفحات پر مشتمل دستاویز ہے جو کہ " نظری اعتبار سے " سندھ کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہے. 2017-2017 میں صحت کے لئے مختص بجٹ 14 ارب روپے تھا. [17] یہ رقم ہونے کے باوجود، موجودہ نظام کی دھجیاں بکھر چکی ہیں

مہتاب ایس کریم اور شہلا زیدی کی طرف سے کئے گئے ایک بہت جامع مطالعہ - سندھ میں صحت اور بہبود آبادی پروگرام کی ناقص کارکردگی: حکومتی ناکامی کے بارے میں اس کیس سٹڈی (اس مقالے کا ایک پہلا نسخہ، پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکنامسٹس، کی 15 ویں سالانہ جنرل میٹنگ میں پیش کیا گیا تھا نومبر 1999) میں اس موضوع کا مکمل طور پر خلاصہ بیان کیا گیا ہے. [18] تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ اس مقالے میں زیر غور ہر ایک جزو درحقیقت وہیں پر واقع ہے جہاں 18 سال پہلے تھا. صحت کی دیکھ بھال کا نظام، خاص طور پر سرکاری شعبہ ابھی تک بے یقینی کی حالت میں ہے، یا گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت سے پہلوؤں سے بد ترہو چکا ہے

سرکاری اور نجی شعبہ اور این جی اوز کا اشتراک عمل

سندھ کے محکمہ صحت نے امداد باہمی کی سوچ کو ملحوظ رکھتے ہوئے نجی شراکت داروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو ساتھ لیا ہے. یہ شراکت صحت سے متعلق حکمت عملی میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ پی پی پی آئی پروگرام کا حصہ ہے

ممکنہ حل

یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سندھ کی آبادی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، اس کی جغرافیایی محل وقوع ، اور زمینی و سیاسی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کے لئے ایک حل پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت ہے. حکومت سندھ کو عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور شدت، حساسیت اور عوام پر ان کے اثرات کی بنیاد پر تمام ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرے. صحت کی ہنگامی صورتحالوں کے درپیش آنے کے بعد جوابی ردعمل کے بجائے توجہ انسدادی صحت کی دیکھ بھال کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے،جس کے لئے پیش آگاہی ، سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایک اعلی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہو گی جو انتہا ئی پھرتی اور مستعدی کے ساتھ اسے چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ ہوں. کاغذ پر، مستقبل کی منصوبہ بندی اچھی لگتی ہے، لیکن نظری کتابچے چھاپنے سے سندھ کی مصیبت ذدہ آبادی کو نہیں ملے گی جب تک کہ حکومت اصل میں مختص بجٹ اور تمام وسائل کا استعمال نہ کریں اور سندھ کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دے. صحت کی دیکھ بھال کا مسئلہ ایک معاشرے کے دوسرے بڑے بڑے ستونوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہے اور باہمی منحصر ہے جومل کر آبادی کو برقرار رکھتے ہیں

عوامی تعلیم، شرح خواندگی ، سماجی و اقتصادی حیثیت، روزگار کے مواقع اور سب سے اہم آبادی پیدائش کنٹرول کی شرح پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے. تعلیم اور آگہی پروگرام جس کا منتہا لوگوں میں صحت اور شہری ذمہ داری کو بیدار کرنا ہو اتنا ہی اہم ہے۔ خاص طور پر ایک ماحولیاتی نقطہ نظر سے. حکومت کو صنعتی اور دیگر ذرائع سے پانی کے تحفظ اور ماحولیاتی تحفظ کے لئے حفاظتی اور بحالی کے اقدامات کو منظم اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے

طبی سیاحت

آخری لیکن اہم بات ؛ حکومت کو دنیا بھر میں ہو رہی تکنیکی ترقی کے ساتھ مطابقت اختیار کرنے کے لئے طبی پیشہ وروں کی ترقی اور تربیت پر توجہ دینا چاہئے. کراچی ان مراکز میں سے ہے جہاں طبی تربیت پاکستان کے باقی حصوں کے مقابلے میں بہت آگے اور ترقی پزیر ہے. اس برتری کو طبی سیاحت کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے جو کہ آمدنی کے حصول کے لئے بڑا موقع ہو سکتا ہے. گزشتہ 10 سالوں میں بھارت نے صحت و نگہداشت کے معیار اور مقدار میں اس طرح کی پیش قدمی کی ہے کہ یہ بین الاقوامی گاہکوں کے لئےاعضاء کی پیوند کاری کے سلسلے میں اہم طبی سیاحت کا مرکز بن گیا ہے. کراچی ایک وقت پر اعضاء کی پیوندکاری کے لئے ایک مرکز تھا تا وقت یہ کہ غیر اخلاقی طرز عمل اور حکومتی کوتاہیوں کی وجہ سے اعضاء کے عطیات بد انتظامی کا شکار ہو گئے. سندھ کی آبادی کے لئے اس حاصل شدہ آمدنی سے کراس سبسڈی دی جا سکتی ہے


Karachi HealthCare Sindh Diseases Health Policy Prosper Pakistan Healthly environment