تجزیہ

چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور اور ایسٹ انڈیا کمپنی


چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور (راہداری منصوبہ) میڈیا میں کبھی تو گیم چینجر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور کبھی اسے ،، پاک چین دوستی ۔ وانگ ووئے،، کے نعروں سے نمایاں کیا جاتا ہے۔ پاکستان بالخصوص اور باقی دنیا بالعموم اس سے بہت سی معاشی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے ابواب جوڑ کر اسے دنیا کے لیے ایک اہم منصوبہ اور سنگ میل قرار دیتے ہیں۔ اس منصوبے سے وابستہ تمام تر معاہدے اور دستاویزات فی الوقت مخفی ہیں۔ اس تمام منصوبے کی منصوبہ بندی عام عوام اور افراد کی دسترس اور رسائی میں نہیں ہے۔ اس صورتحال سے دو سوال جنم لیتے ہیں۔ یا تو یہ منصوبہ اتنا مفید اور سود مند ہے کہ اس کے فوائد، مضمرات اور خوائص اس منصوبے کے دشمنوں سے مخفی رکھ کر اس کی تکمیل تک اس پرسرار خاموشی کو جاری رکھا جائے اور یا پھر معاملہ کچھ اور ہے۔ نیک گماں ہونا چاہئے۔۔ مگر کیا اس ساٹھ بلین ڈالر کے منصوبے کو اتنی خاموشی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے؟ کیا اس کے متعلقہ سوالات سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے ؟ کیا روزانہ دو لاکھ ٹرکوں اور ٹریلروں کی پاکستان آمد کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنا صرف ایک منسٹری یا ادارے کے بس کی بات ہے؟ دولاکھ ٹرکوں کی آمد سے چار لاکھ آنے والے ڈراےؤروں کنڈکٹروں کے ویزہ، دستاویزات، میڈیکل ایشوز، خوراک، سیکورٹی، مسائل، پانی، فیول، اور متعدد عوامل کے بارے کوئی منصوبہ بندی تاحال ممکن ہوسکی ہے ؟

یہ تو محض ایک پہلو ہے۔ وفاقی حکومت کا حالیہ فیصلہ کہ سی پیک کے جیو اسٹریٹجک پہلو ؤں پر بھی ریسرچ کی جانی چاہیے بہت اہم ہے تاکہ پاکستان کو خطے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اثرات، تجارت اور اس کے فوائد کے حوالے سے بھی زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان کے مختلف اداروں مثلاَ َ ہائر ایجوکیشن کمیشن ، بورڈ آف انویسٹمنٹ ، پاکستان انسٹیٹیوت آف ڈویلپمنٹ اکنامکس PIDE)) اسلام آباد ، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیصل آباد ،پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ ، این ایل سی انسٹیٹیوٹ گلگت میں مختلف ریسرچ سیل بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سی پیک کے مختلف پہلوؤں پر ریسرچ کا سلسلہ جاری ہے تاہم گزشتہ دنوں سی پیک پر اہم اجلاس میں یہ نکتہ زیر غور آیا کہ پوری دنیا کی نظریں سی پیک پر لگی ہوئی ہیں جس کے باعث اجلاس میں شامل اعلیٰ افسران کی جانب سے ضروری سمجھا گیا کہ سی پیک ریسرچ پروگراموں میں جیو اسٹریٹجک ریسرچ کا پہلو بھی شامل کیا جائے۔ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ، انجئرنگ اینڈ مینجمنٹ میں سی پیک کے حوالے سے ایک ریسرچ سنٹر بھی تشکیل دے دیا گیا ہے. واضح رہے کہ چئرمین جوائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں واضح کہا تھا کہ انڈیا میں خفیہ ایجنسی راء نے پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت سے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک سیل بنا دیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اس وقت لیبر کے لئے حالات بہت مشکل اور دگرگوں ہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ سے آنے والی لیبر کیلیے پالیسی تجاویز تیار کرنے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ اسے سی پیک اقتصادی زونز میں روزگاردیاجاسکے۔مزید براں مختلف اقتصادی زونز بنانے کے بارے صوبوں اور عام عوام کو بہت تشویش لاحق ہے۔ کیا چائینز کمپنیاں یہاں مالکانہ حقوق کے ساتھ زمین خرید سکیں گیں؟ یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار کیسے میسر آئے گا؟ لیبر قوانین کیا ہوں گے؟ کیا چینی انویسٹرز اور حکومت بھی ہماری ترجیحات سے متفق ہے یا خانیوال میں ہونے والے واقعات کی طرح ہمارے اداروں ، اہلکاروں اور سرمایہ کاروں کو بے بسی کا راگ الاپتے دیکھا جائے گا؟

ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کے تحت چین پاکستان سمیت ساٹھ مختلف ممالک میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ سی پیک کی طرز پر چھ مختلف کاریڈور بنائے جائیں گے۔ چین اور پاکستان کی دوستی بے مثال اور لازوال ہے۔ دونوں ممالک کے سیاسی حالات کبھی بھی انکے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوئے۔ تاہم چین کی طرف سے سوشل میڈیا پر بالخصوص اور پرنٹ میڈیا میں بالعموم اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کہنا، مختلف خدشات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ایک رسک کے طور پر لیا جارہا ہے۔ چین کے تعلیم، سیاست اور اقتصادی ماہرین اس بات پر لکھ بھی رہے ہیں کہ پاکستان میں چین کے خلاف بڑھتے خدشات انکی ساکھ، اور سرمایہ کاری کے لئے خطرہ ہیں۔

کیا چین پاکستان میں ایک ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسکی بازگشت ہر فورم پر سنائی دے رہی ہے۔ اس پہلو سے مندرجہ ذیل باتیں ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہیں۔ چین بقائے باہمی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ خطے میں موجود ہندوستانی دشمنی ، تعصب اور سازشوں کے باوجود چین کسی جنگ سے باز رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں چین نے صلح جوئی اور امن کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان کو توانائی اور دفاعی مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لئے چین نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ اس وقت انکی طرف سے کسی ایسی کوشش یا مہم جوئی نہیں کی گئی۔

سامراجیت اور اقتصادی استحصال کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاصہ تھا کہ وہ اپنی کالونیز سے خام مال اور وسائل لوٹتے تھے۔ چین بذات خود وسائل اور صنعتی ترقی سے مالا مال ہے۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور چین کی ترجیحات میں فرق ہے۔ چین کی طرف سے افریقہ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ چین نے وہاں سکول، ہسپتال، سڑکیں، پل، اور بہت سے دوسرے پراجیکٹ میں انسانی معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے کوشش کی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا انداز عمل قطعی مختلف اور ظالمانہ تھا۔ استحصال بر مبنی تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل دور حکومت اس وقت کے لحاظ سے سونے کی چڑیا تھی۔ برصغیر دنیا کے وسائل کا سترہ فیصد تھا جبکہ 1947 میں جب برطانوی راج ختم ہوا تو برصغیر دنیا کے وسائل کا محض تین فیصد تھا۔ پاکستان میں ایک مروجہ نظام ہے جو کسی بھی بین الاقوامی شہری اور ادارے کے سامنے اپنا فیصلہ دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں چینی کمپنی کو ٹیرف کے معاملے پر بولی سے روک دینا بھی ایک ایسا عمل ہے جو مغل دور میں نہیں دیکھا گیا۔ یہاں چند سوالات پیش کئے جا ر ہے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات کی بنیاد پر سی پیک کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر اٹھنے والے سوالات اور خدشات کو دور کیا جاسکتا ہے۔

کیا پاکستان نے سی پیک کی جامع فزیبلیٹی تیار کی ہے۔ ممکنہ چیلنجز سے نپٹنے کی منصوبہ بندی مکمل ہوگئی ہے ---

کیا پاکستان نے سی پیک کی تکمیل کی صورت میں ماحول اور آب و ہوا پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے اپنا ہوم ورک اور حکمت عملی تیار کر لی ہے؟ ---

گوادر کی بندر گاہ سے ہونے والی مجموعی آمدن میں پاکستان کا حصہ کس حد تک ہوگا، کیسے ہوگا اور اسکا انتظام وانصرام کس کے ہاتھوں میں ہوگا؟ ---

بلوچستان کے لئے کیا پیکج اور حصہ مختص کیا گیا ہے؟ ---

مقامی صنعت پر اس کے اثرات کیا ہونگے؟ ---

راہداری منصوبے کے محصولات کیسے وصول کئے جائیں گے؟ ---

بیرون ممالک بالخصوص چین سے آنے والے لوگوں کے حوالے سے قانون سازی؟ ---

افغان مہاجرین کے بوجھ اور مسائل کو بھگتے والے پاکستان کو چینی سرمایہ کاروں کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی طرز پر قانون سازی کرنی ہوگی۔ بین الاقوامی قوانین اس بارے کیا کہتے ہیں؟ ---

میری ٹائم سیکورٹی کے حوالے سے حکمت عملی کیا ہے؟ ---

جہازراں کمپنیوں کے قیام، محصولات اور انکی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی؟ ---

چین اور سی پیک کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات، سوالات اور مسائل کے لئے عوام کے اندر اس منصوبے کی قبولیت اور چینی عوام کی نیک نیتی کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ اس منصوبے کے بارے پراپیگنڈہ اور افواہوں کا بروقت تدارک نہایت ضروری ہے۔ کون سا شعبہ یہ فریضہ سرانجام دے گا؟ ۱۲۔ گوادر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ اگر سمندری پانی کو میٹھا کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے تو اس حوالے سے خطیر لاگت سے متعلق مالیاتی وسائل کس طور فراہم کیے جائیں گے؟ چین اور پاکستان کو ملکر اس تائثر کو زائل کرنا ہوگا کہ چین ایک ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں بلکہ ایک سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر پاکستان کا دوست اور باوقار ہمسایہ رہے گا۔ اس بارے سی پیک کے دشمنوں کی پانچ ملین ڈالر کی لاگت سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور منفی تشہیر کا بھی مقابلہ و تجزیہ کرنا ہوگا


image description

زاہد عامر

زاہد عامرمعروف مصنف ، فکشن نگار اور بین الاقوامی امور اور دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں ۔ ان کی تعلیمی قابلیت ایجوکیشنل پلاننگ اور مینجمنٹ ، بین الاقوامی تعلقات (IR) اور اردو میں ماسٹرز، کوالٹی مینجمنٹ میں ایم فل اور اس وقت وہ جامعہ قائد اعظم کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ریسرچ اسکالر ہیں. زاہد عامر چار کتابوں کے مصنف ہیں ، نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے ان کی کتاب کو بہترین بایوگرافی برائے سال 2002 سے نوازا جا چکا ہے