CPSD - Commentary

ماورائےعدالت ہلاکتیں : سلامتی اور انصاف کے درمیان توازن


نقیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات پر معمور کی گئی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے واقعہ سے کچھ ہی دیر بعد آئی جی سندھ پولیس کو اپنی رپورٹ پیش کی اور ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا. سندھ حکومت نے راؤ انوار کو ہٹانے اور ایس ایس پی ملیر کا چارج عدیل چانڈیو کو سو نپنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے.

میڈیا ذرائع کے مطابق، حکومت نے افسر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی ڈال دیا ہے. ای سی ایل پر موجود لوگوں کے لئے ملک سے باہر جانے کی پابندی ہے. کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ گزشتہ رات آئی جی سندھ کو پیش کی، جس میں مقتول کے بے گناہ ہونے کی توثیق کی گئی ہے ۔ یہ خبر نامعلوم زرائع کے حوالے سے ٹی وی چینل نے دی ہے

انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں قائم اس تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کے خلاف ایس ایس پی راؤ انوار کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے، انہوں نے مزید کہا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ مقتول کی کسی بھی دہشت گرد گروپ یا کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستگی تھی

نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے ہیں ، اور معلوم ہوا ہے کہ اپنی رپورٹ میں کمیٹی نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت اس قتل میں ملوث دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے ۔ کمیٹی نے مزید تجویز کیا ہے کہ "انکاؤنٹر اسپیشلسٹ" راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جانا چاہئے

اس اقدام کی بڑی وجہ عوامی غیض و غضب کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کی طرف سےلیا گیا ایک ازخود نوٹس تھا. سوشل میڈیا پر راؤ انوار کے خلاف جاری مہم کے علاوہ، سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں، سیاسی جماعتوں کے ارکان اور مختلف پشتون محلوں سے پشتون قبائلی رہنماؤں سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب میں افسر کے خلاف مظاہرہ کیا.

یہ المناک واقعہ ہماری توجہ عام شہریوں کی جان کو لاحق " پولیس مقابلوں" یا "عدالتی قتل" کے بد ترین خطرے کی طرف مبذول کرواتا ہے. اس طرح کے قتل کے مرتکب عام طور پر پاکستان کے عام شہریوں کو دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی کرکے اکثر جج، جیوری اور عملدرآمد کروانے والے ہو تے ہیں. راؤ انوار جیسے بہت سے پولیس افسران ہیں جنہیں اکثر " انکاؤنٹر اسپیشلسٹ " قرار دیا جاتا ہے. راؤ انوار ماورائے عدالت قتل اور بھتہ خوری دونوں کے لئے جانی جاتی ایک بدنام زمانہ شخصیت ہیں. مبینہ طور پر راؤ نے گزشتہ صرف ایک ہی سال میں 45 جعلی "مقابلوں"کو انجام دیا۔

پولیس مقابلوں کا رجحان ایک سندھ صرف میں ہی نہیں بلکہ ملک کی طول و عرض میں پایا جاتا ہے. بلکہ پنجاب ان مقابلوں کے لئے بدنام ہے. صوبہ پنجاب میں 2017 کے پہلے 10 مہینوں کے دوران 203 "پولیس مقابلوں" میں کم از کم 226 مبینہ مجرموں کو قتل کیا گیا. پچھلے سال، پولیس نے اسی مدت کے دوران 245 مسلح پولیس مقابلوں میں 292 مبینہ مجرموں کو ہلاک کیا گیا تھا. .

پولیس مقابلوں کے حامی خاص طور پر کراچی کے آپریشن زدہ شہر میں پر تشدد مجرموں سے شہر کوپاک کرنے کے واحد راستہ کے طور پر ماورائے عدالت قتل واقعات کا حوالہ دیتے ہیں. اندرونی ذرائع کے مطابق پنجاب میں پولیس نے ناقابل اصلاح مجرموں کے خاتمے کے لیے ایک معیار مقرر کیا ہے اور پولیس کی فائرنگ کے دائرہ کار میں وقتا فوقتا ترمیم کی جاتی ہے. ایک بار جب صوبائی انتظامیہ یا اعلی افسران کو اختیار دیا جاتا ہے، تو 'انکاؤنٹر کے معیار' کے تحت آنے والے افراد کو فوری طور پر ختم کر دیا جاتا ہے

اس نام نہاد پالیسی کے مطابق ڈکیتی کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث مجرموں اور تاوان کی ادائیگی قبول کرنے کے بعد بھی مغوی کو مار دینے والے مجرموں کا جارحانہ خاتمہ کیا جا سکتا ہے. اسی طرح،جومجرم کسی پولیس والے پر گولی چلائيں یا کسی گھر پر ڈکیتی کی کوشش کے دوران متاثرہ شخص کو قتل کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اور اس طرح ایک جعلی مقابلے میں ختم کرنے کے مستحق ہیں. پولیس بھتہ خوروں کی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کے لئے بھی 'با اختیار' ہے

اس کی حمایت کرنے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسند جو آسانی سےعدالتی نظام کو تہ و بالا کر کے سزا سے بچ جاتے ہیں. ان کے لئے ماورائے عدالت ہلاکتیں اکثر اس کمزوری سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ دکھائی دیتا ہے. تاہم، اس رائے کے مخالفین کا دعوی ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں کا فارمولہ عوام میں تحفظ کا احساس بڑھانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے. ان کے مطابق، ماورائے عدالت ہاکتیں بڑھتے ہوئی جرائم اور عسکریت پسندی کو کنٹرول کرنے کا کوئی طویل یا مختصر المیعاد حل نہیں ہیں..

ماورائےعدالت ہلاکتوں کے اسباب اور اثرات کے تدارک کرنے کے لئے ایک مستحکم اور مؤثر عدالتی نظام ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں یہ سماجی نا انصافی اور عوام میں عدم تحفظ کا ایک اہم کردار بن سکتا ہے.