( سیمیناربرائےاینرجی سیکیورٹی پالیسی ( پالیسی برائے توانائی سلامتی
( اینرجی سیکیورٹی پالیسی ( پالیسی برائے توانائی سلامتی
سینٹر فار پیس، سیکیورٹی اینڈ ڈیویلپمنٹل سٹڈیز (مرکز برائے امن، سلامتی اور ترقیاتی مطالعہ) (سی پی ایس ڈی) کے زیر انتظام تین دسمبر2018 کو پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اینرجی سیکیورٹی پالیسی (پالیسی برائے توانائی سلامتی) کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں توانائی کی صنعت کے تمام شعبوں کو یکساں اہمیت دی گئی۔ پروگرام کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا جس میں پہلا حصہ آبی توانائی، دوسرا حصہ قدرتی تیل اور گیس کی صنعت، اور تیسرا حصہ توانائی کے متبادل ذرائع سے متعلق تھے
افتتاحی سیشن
تقریب کا آغاز صدر سی پی ایس ڈی، سابق لیفٹننٹ جنرل آغا محمدعمرفاروق کے ابتدائی کلمات سے ہوا.جس میں انہوں نے سیمینار کے اہتمام کے اعراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سیمینار میں ماہرین کی جانب سے دی جانیوالی گذارشات توانائی کی صنعت میں ترقی کے لئے مثبت کردار ادا کریں گی. انہوں نے مزید کہا کہ اس سیمینارمیں پیش کی گئی گزارشات کی روشنی میں انرجی ایکشن پلان کے نام سے ایک جامع رپورٹ تیار کی جائے گی۔
افتتاحی سیشن کے کلیدی اسپیکر معروف سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ پاکستان پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے توانائی کے فقدان سے نبردآزما ہے جبکہ ملک میں توانائی کی پیداوار کے مقامی قدرتی ذخائر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ڈاکٹرثمرنے سرکلر ڈیپٹ کی اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے سی پیک کے ذریعے طے شدہ ادائیگیوں کے سخت جدول اورنپیرا کے تحت بجلی گھروں سے کئے گئے معاہدوں کی خامیوں پر زیر حاصل گفتگو کی۔
اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ دوسرے ممالک کیساتھ توانائی کے مشترکہ منصوبے بحران سے نکلنے کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں توانائی کی پائیدار ترسیل، مالیاتی رسک میں کمی اور بجلی کی پیداوار کے محفوظ ذرائع میں اضافہ کی بدولت ہی توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پہلا موضوعی سیشن: آبی توانائی اوربجلی
پہلے مقرر چیئرمین واپڈا سابق لیفیٹنٹ جنرل مزمل حیسن نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ اللہ نے پاکستان کو لاتعداد معدنیات اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے. ناقص نظام ہماری بدحالی کا ذمے دار ہے. ڈیمز نہ ہونے کی بدولت نہ ہم پانی محفوظ کرپائے ہیں نہ بجلی کے بحران پر قابو پا سکے ہیں۔ سیشن کے دوسرے مقرر سید شبر زیدی نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے توانائی کا نظام بھی متاثر ہے. ملک میں 1952کے بعد سے نہ تو ڈیم بنے ہیں نہ گیس کے نئے ذخائر تلاش کیے گئے ہیں۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پاکستان درآمد شدہ خام تیل پرانحصار کرتا ہے جس کی قیمت عالمی منڈی میں تیزی سے اتارچڑھاؤ کا شکار رہتی ہے۔ پاکستان میں صارفین کی ادا کی گئی قیمت بھی بجلی کی اصل قیمت سے بہت کم ہے۔
سیشن کے صدر جناب غیاث خان نے سیشن کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے وسائل کی کمی سے زیادہ پالیسی کے تسلسل پر کام کرنے کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا کہ ہمیں زیادہ مدت پر مشتمل منصوبہ سازی کرنی ہوگی. پانی کو ذخیرہ کیے بنا توانائی کے پروجیکٹ پر دیرپا کام ممکن نہیں ہے. ہمیں کوئلے سمیت گیس اور تیل کے ذخائر بھی تلاش کرنے ہونگے
دوسرا موضوعی سیشن: تیل اور گیس کی صنعت
لیمیٹڈ کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز اسد علی شاہ اور آئل کمپنی ایڈوائسری کونسل کے سرپرست سید زوار حیدر شامل تھے۔ دوسرے سیشن کے پہلے مقرراسد علی شاہ نے ترسیل اور تقسیم کے دوران بجلی کے ضیاع، سرکلر ڈیپٹ، ریفائنرز کی کم تعداد، اور سازگار پالیسی کی کمی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توانائی کی صنعت کی ترقی کے لیے مربوط حکمتِ عملی، مقامی ذرائع سے توانائی کی پیداوار کے فروغ اورنجی کمپنوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔
پالیسی ملک کی اہم ضرورت ہے.انہوں نے نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ کی وکالت کی بلکہ تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر پر بھی زور دیا۔
حکومت کو توانائی کی ریگیولیشن کے لیے ایک واحد ادارے کے قیام کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مظبوط وفاق کی حمایت کرتے ہوئے کہا کے صوبوں کے اختلافات توانائی کی متواتر پالیسی میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
تیسرا موضوعی سیشن: توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ذرائع
سیشن کے پہلے مقرر جی ای پاکستان کے سرپرت جناب صارم شیخ تھے۔ انہوں نے دوران خطاب کہا کہ موجودہ دور کے لحاظ سے توانائی سلامتی تین عوامل کا مرکب ہے: اقتصادی سلامتی، گنجائش اور استحکام۔ انہوں نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مقامی سطح پربجلی کی ترسیل کے نیٹ ورک اور چھوٹے چھوٹے گرڈ اسٹیشن قائم کرنا ہونگے۔ انہوں نے توانائی کی پیداوار کے متبادل ذرائوں کے استعمال میں اضافے اورتوانائی کی صنعت میں ڈیجیٹائیزیشن پر زور دیا۔
پاکستان کے جوہری توانائی کمیشن کے چیئرمین محمد نعیم سیشن کے دوسرے مقرر تھے۔ انہوں نے کہا کہ کے ٹو اور کے تھری پروجیکٹ کی تکمیل سے 2030 تک پاکستان آٹھ ہزارمیگا واٹ بجلی بنانے کے قابل ہوجائیگا جبکہ 2050 تک ہم چالیس ہزار میگا واٹ تک بجلی بنا سکیں گے. ان کا کہنا تھا کہ نیوکلر پاور پلانٹ کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ امجد علی اعوان نے سیمینار کے تیسرے حصہ کا آختتام کرتے ہوئے کہا کہ توانائی بحران سے نبردآزما ہونے کے لئےپاکستان کواپنے اہداف خود مقرر کرنے ہونگےـ مقامی وسائل کے ذریعے توانائی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے. توانائی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی پالیسی مرتب کرنی ہوگی جس پرسب کا اتفاق ہو۔
اختیتامی سیشن
سابق وفاقی وزیر سہیل وجاہت صدیقی نے سیمینارکے اختتامی سیشن کا آغاز توانائی بحران کے تفصیلی جائزہ سے کیا۔ انہوں نے تقریب کے مقررین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کی تقاریر میں توانائی کی فراہمی کے تمام اہم اجزا کی نشاندہی ہو چکی ہےاور اب محظ ان اجزا پر مبنی ایک اہم نسخے کی ضرورت ہے۔ جناب سہیل وجاہت نے نیشنل انرجی اتھارٹی نامی ادارہ کی تشکیل پر زور دیا جو توانائی کی صنعت سے جڑے تمام اداروں اور شعبوں کی نگرانی کرے گا اورقومی توانائی پالیسی کے مرتب کرنے کے لیے ذمہ دار ہو گا۔
کرتے ہوئے کہا کہ "توانائی سلامتی" کا تصور قومی سلامتی کے ایک اہم عنصر کے طور پر کیا جانا چاہیے۔ توانائی سلامتی سے نہ صرف معاشی استحکام ممکن ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے منتظمن کی تعریف کرتے ہوئےکہا کہ توانائی کے نظام میں بہتری لانے اور بحران پر قابو پانے کی اس کاوش میں دفائی قیادت بے حد سنجیدہ ہے۔
دادابھائی نے شرکاؤں کا شکریہ ادا کیا. انہوں نے کہا کہ سی پی ایس ڈی کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اس قسم کی ریسرچ پیش کرے جو ملک کے لئے سود مند ثابت ہو. مجھے یقین ہے یہ سیمینار بھی ماضی کی نشستوں کی طرح بہترین ثابت ہوگا. ہمیں امید ہے کہ اس سیمینار میں کی گئی گفتگو سے متعلقہ ادارے استفادہ حاصل کریں گے. سی پی ایس ڈی کی کوشش رہی ہے کہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرئے. اسی لئے ہمارا ادارہ اس قسم کے سیمیناروں کا انعقاد کرتا ہے. ہمیں یقین ہے حکومت ماہرین کی تجویزات کو بروکار لا کر توانائی کے بحران پر قابو پا سکے گی۔